روس میں فوجی بغاوت

روس میں فوجی بغاوت کا خطرہ ٹل گیا، باغی گروپ کے ساتھ مذاکرات کامیاب

مفاہمتی کوششوں کے باعث روس میں بغاوت کا خطرہ ٹل گیا، کامیاب مذاکرات کے بعد باغی گروپ کے سربراہ نے اپنے اہلکاروں کو واپس یوکرین جانے کا حکم دے دیا۔
ویب ڈیسک: خبر رساں ادارے کے مطابق روس کے نیم فوجی دستے ویگنر کے کمانڈر اور روسی حکومت کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں ، مفاہمتی کوششوں کے باعث روس میں فوجی بغاوت کا خطرہ ٹل گیا، معاہدہ ہونے کے بعد کریملن کا کہنا ہے کہ ویگنر کے سربراہ کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو گی اور وہ پڑوسی ملک بیلاروس منتقل ہو جائیں گے۔
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ ویگنر کے کمانڈر یوگینی پریگوزین کے خلاف فوجی بغاوت کے الزامات ختم کر دیے جائیں گے جبکہ ان کے ساتھیوں کے خلاف بھی کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو گی۔
علاوہ ازیں جن جنگجوؤں نے اس بغاوت میں حصہ نہیں لیا تھا، وہ روسی وزارت دفاع کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کریں گے ، وزارت دفاع یکم جولائی تک تمام خود مختار رضاکار فورسز کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کررہی ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کاکہنا ہے کہ لوکاشینکو نے روسی صدر ولادی میر پوتین اور پریگوزن کے درمیان معاہدے میں ثالثی کی پیش کش کی تھی ۔
اگرچہ خود روسی صدر پیوٹن نے اس سے قبل بغاوت میں حصہ لینے والے جنگجوؤں کو سزا دینے کا عہد کیا تھا ، لیکن پیسکوف نے کہا کہ معاہدے کا "اعلیٰ مقصد” تصادم اور خونریزی سے بچنا تھا۔
اس سے قبل پریگوزن نے مطالبہ کیا تھا کہ وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور چیف آف جنرل اسٹاف ویلری گیراسیموف کو ان کے حوالے کیا جائے۔
دوسری جانب روسی دارالحکومت ماسکو کے رہائشی نیم فوجی دستے اور روسی فوج کے درمیان تنازع پر پریشانی کا شکار ہیں جبکہ یوکرین روس کے ’اندرونی ہنگامے‘ پر خوش دکھائی دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ روس کے نیم فوجی دستے ویگنر نے روسی فوجی قیادت کے خلاف بغاوت کا اعلان تھا جس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا تھا کہ ویگنر گروپ کی فورسز کی جانب سے مسلح بغاوت غداری ہے اور جس نے بھی روسی فوج کے خلاف ہتھیار اُٹھائے اسے سزا دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  پشاور، خیبر پختونخوا حکومت کا نئے مالی سال کے بجٹ کی تیاری، تفصیلات طلب