قومی راز کے ساتھ کھلواڑ

سابق وزیر اعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا یہ بیان خاصا چشم کشا ہے کہ سائفر ڈرامہ سیاسی مقاصد کے لئے رچایا گیا ‘ لگ بھگ ایک ماہ تک روپوش رہنے والے بیورو کریٹ نے سامنے آنے کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے تمام تر حقائق کو چھپا کر سائفر کا جھوٹا اور بے بنیاد بیانیہ بنایا’ تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے سائفر کی بیرونی سازش کا نام دیاگیا’ اعظم خان کے مجسٹریٹ کے سامنے بیان کے مطابق عمران خان نے کہا کہ سائفر کو غلط رنگ دے کر عوام کا بیانیہ بدل دوں گا’ اعظم خان اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان نے سائفر مجھ سے9 مارچ کو لیا اور بعد میں گم کردیا’ بیان کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر ڈرامے کے ذریعے عوام میں ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت کا بیج بویا’ انہوں نے کہا کہ منع کرنے کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکرٹ مراسلہ ذاتی مفاد کیلئے لہرایا اور جان بوجھ کر ملکی سلامتی کے اداروں اور امریکہ کی ملی بھگت کا غلط رنگ دیا گیا، سائفر کا ڈرامہ صرف اور صرف اپنی حکومت بچانے کے لئے رچایاگیا’ سابق وزیراعظم نے سائفر اپنے پاس رکھ لیا جو کہ قانون کی خلاف ورزی تھی’ سائفر واپس مانگنے پرچیئرمین پی ٹی آئی نے اس کے گم ہونے کا بتایا’ ذرائع نے بتایا کہ 28مارچ کوبنی گالا میں ہونے والی میٹنگ اور 30 مارچ 2022ء کو سپیشل کیبینٹ میٹنگ میں سائفر کا معاملہ زیر بحث آیا ‘ ذرائع کے مطابق میٹنگز میںسیکرٹری خارجہ نے شرکاء کو سائفر کے مندرجات کے بارے میں بتایا’ جبکہ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سابق وزیر اعظم کو سائفر سے متعلق پہلے ہی بتا چکے تھے تاہم سابق وزیر اعظم نے سائفرکواپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ بنانے کے لئے استعمال کرنے کافیصلہ کیا’ دریں حالات جبکہ سائفر کے معاملے کو سابق پرنسپل سیکرٹری نے مجسٹریٹ کے سامنے 164 کے تحت بیان کے ذریعے طشت ازبام کردیا ہے، وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ اعظم خان کا اقبالی بیان چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف فرد جرم ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نے ذاتی مفاد کے لئے سائفر کا ڈرامہ رچایا’ اس لئے عمران خان کوگرفتار کرکے سائفر برآمد کرنا ضروری ہے’ ادھر بعض اطلاعات کے مطابق متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ رات گئے بنی گالہ پر مبینہ طور پر چھاپہ بھی مارا تاہم اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ ادھر سائفر تحقیقات کے حوالے سے ایف آئی اے نے چیئرمین تحریک انصاف کو 25 جولائی کو طلب کرکے ان سے متعلقہ ریکارڈ سمیت تفتیش میں شامل ہونے کا نوٹس جاری کردیا ہے’ دوسری جانب پی ٹی آئی کی جانب سے اعظم خان سے منسوب بیان کو تضادات کا مجموعہ قراردے دیا گیا ہے، اس صورتحال میں اصل حقائق تک پہنچنے کیلئے ایف آئی اے کی تحقیقات کے مکمل ہونے کا انتظار کرنا لازمی ہے تاہم جہاں تک اعظم خان کے اقبالی بیان کا تعلق ہے اس کو دوران تحقیق کسی بھی طور نظر انداز کرنا انتہائی مشکل ہو گا’ اس لئے کہ یہ کسی شخص کی جانب سے پولیس کے سامنے دوران تفتیش کسی مبینہ دبائو کے تحت دیا جانے والا بیان نہیں ہے جس کی یہ آگے چل کر عدالت میں حرح کے دوران وکلاء دھجیاں بکھیر دیتے ہیں اور اقبالی ملزم خود بھی اس سے انکار کرکے صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیتا ہے بلکہ کسی بھی عدالت کے سامنے اقبالی بیان کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور بیان کے ہر پہلو پر کئی پہلوئوں سے سوالات اٹھا کر اس بات کی تسلی کی جاتی ہے کہ آگے چل کر اس میں کسی قانونی کمزوری کا پہلو سامنے نہ آسکے جبکہ اقبالی بیان کے عدالت میں ریکارڈ کئے جانے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور اعظم خان جیسے سینئر بیورو کریٹ کو قانونی پیچیدگیوں اور نزاکتوں کا اچھی طرح سے علم ہے’ پھر بھی دوران تفتیش اعظم خان کے اٹھائے گئے سوالات پر چیئرمین تحریک انصاف کے جوابی بیان کا قانونی طور پر تقابلی جائزہ لینے کے بعد ہی ابتدائی تفتیش میں کیا صورتحال بنتی ہے اور اس کے بعد (ضرورت کے تحت) اگر چیئرمین تحریک انصاف پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے تو پھر عدالتی جنگ کاآغاز ہوگا اور معاملہ ماتحت عدالت کے بعد ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے اندر دونوں طرف کے وکلاء کے بحث و مباحثے کے بعد ہی اعلیٰ عدالتیں جو بھی فیصلہ کریںگی وہی قابل قبول ہوسکتا ہے’ گویا یہ ایک طویل عدالتی معاملہ ہے جس پر آسانی سے کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی’ البتہ معاملہ زیر بحث کے حوالے سے چیئرمین تحریک انصاف کے رویئے پرکچھ اہم سوال ان دنوں سیاسی’ قانونی حلقوں اور سوشل میڈیا کے تجزیہ کاروں کی سطح پر زیر بحث ہیں یعنی سب سے پہلے تو ایک قومی سیکرٹ ڈاکومینٹ (سائفر) کو عوام کے سامنے لہرا کر اس کے حوالے سے مبینہ حقائق پر بات کرنا (قطع نظر سیاسی بیانیہ بنانے کے ) کسی بھی وزیراعظم کے اس حلف کی سنگین خلاف ورزی ہے جس کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر تعینات ہوتے وقت متعلقہ وزیراعظم قومی رازوں کو اپنے تک محدود رکھنے اور اس کوکسی پر بھی منکشف نہ کرنے کے حوالے سے اٹھاتا ہے، دوسرا یہ کہ وزیراعظم’ صدر مملکت’ گورنر یا وزراء کسی بھی سرکاری دستاویز کو دوران اقتدار یا مابعد کسی بھی طور اپنے ذاتی قبضے میں نہیں رکھ سکتا جبکہ چیئرمین تحریک انصاف نے نہ صرف انتہائی غیرذمہ دارانہ رویئے کا مظاہرہ کرتے ہوئے سائفر کے گم ہونے کی بات کی تاہم اپنے بیان کی نفی کرتے ہوئے وہی سائفر جلسوں اور ریلیوں میں لہرا لہرا کرایک جھوٹا بیانیہ گھڑ کر عوام میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی’ اور بہ الفاظ دیگر سائفر کو عرف عام میں”چوری” کرنے کی کوشش کر کے ایک اور سنگین غلطی بلکہ مبینہ جرم کا ارتکاب کیا جس کی قانون میں سزائیں مقرر ہیں’ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے جبکہ اسی تناظر میں سیاسی حلقوں کے نزدیک یہ سوال بھی اہم ہے کہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی رازوں کو سرعام”ارزاں” کرنے والوں کو کس اخلاق اور قانون کے تحت بار دیگر وزارت عظمیٰ کے منصب پر بھٹانے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کی اصل حقیقت