سائفر پھر زندہ ہوگیا

حکومت جاتے جاتے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو عمران خان کا مسعودمحمود بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہے مسعود محمو د ایف ایس ایف کے سربراہ اور سینئر بیوروکریٹ تھے جنہیں جنرل ضیاالحق نے نواب احمد خان قتل کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کا وعدہ معاف گواہ بنایا تھا ۔مسعود محمود کا ایک سادہ مہبم اور کمزور سا بیان بھٹو کے گلے کا پھندہ بن کر رہ گیا تھا ۔اعظم خان چالیس دن کی گمشدگی کے دوران وعدہ معاف تو بن گئے مگر یہاں کوئی نواب احمد خان جیسا واقعہ اور کردار موجود نہیں ۔میڈیا پر اعظم خان کا مبہم سا بیان چلنا شروع ہو تو کہانی میں کئی جھول آتے چلے گئے ۔حکومت کا پہلا موقف تو یہی تھا کہ سائفر حقیقت نہیں ڈرامہ ہے جس کا کوئی وجود نہیں بعد میں اس کا وجود تسلیم کیا جانے لگا ۔عمران حکومت ،نیشنل سیکورٹی کمیٹی شہباز حکومت ،سفیر اسد مجید سمیت سب لوگوں نے مراسلے کے وجود پر جلد یا بدیر مہر تصدیق ثبت کر دی اور اب ایک اہم کردار اعظم خان نے بھی اس وجود کو تسلیم کیا ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اب اس سائفر کہانی پر مٹی پائو اصول لاگو کر دیا جاتا مگر ڈیڑھ سال بعد بھی اس مسئلے کو زندہ رکھا جا نا پاکستان کے سسٹم اور امریکہ کو مسلسل ندامت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے ۔ریاستوں کے تعلقات کی نوعیت پرپیچ اور تہہ در تہہ ہوتی ہے۔اس طرح مسلسل ڈھول پیٹنے سے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔وزیر اعظم ہاوس سے امریکی سائفر چوری ہوجانے کی خبر سے جہاں یہ بات طے ہوگئی تھی کہ سائفر نام کی کوئی شے اپنا مادی وجود رکھتی وہیں یہ بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ سائفر کے آنے پر جو طوفان نہیں اُٹھا وہ اس کے جانے یعنی گم ہونے کے بعد ضرور اُٹھے گاوہی ہے کہ اب سائفر کے وجود سے زیادہ اس کی چوری قوم اور ملک کا سب سے بڑ امسئلہ بنتا جا رہا ہے ۔پس ثابت یہ ہوا کہ سائفر شاہ محمود قریشی کی تصنیف اور تحریر نہیں تھا بلکہ کہیںدور دیس سے آنے والا سندیسہ تھا۔ چور نے اس قدم کے ذریعے اس سائفر کا ہونا ثابت کیا جسے حکومتی لوگ ایک ذہنی اختراع ،ہجوم میں لہرایا جانے والا کورا کاغذ ،افسانہ اور دُرفنطی سمیت نہ جانے کیا کیا نام دیا کرتے تھے ۔یہ جو کچھ بھی تھا کہ کم ازکم افسانہ نہیں تھا کیونکہ یہ ایک بار بیچ چوراہے میںہجوم ِ بے کراں کے آگے ہوا میں لہرایا گیا اور اس کے بعدکئی بار ملک کی قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے سجایا گیا،چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوایا گیا ،صدر پاکستان کو دکھایا گیا اس کے باوجود یہ افسانہ ہی کہلایا ۔ایسے میں وزیر اعظم ہائوس میں چور نے گھس کر سارا منظر ہی بدل ڈالا ۔اب سائفر کی آمد سے اتنی دھوم نہیں مچی تھی جتنا ہاہاکار اس کی چوری سے مچ گئی ۔مزے کی بات یہ کہ جو لوگ سائفر کے وجود سے انکاری تھے اب اس کی تقدیس کے پاسبان بن کر میدان میں اُتر رہے ہیں۔سائفر چوری کا مقدمہ عمران خان پر قائم کرنے کی تدبیریں
سوچنے لگے ہیں۔ سائفر جب تک وزیر اعظم ہاوس میں موجود رہا تحقیقات اور توجہ کا مستحق قرار نہ پاسکا جونہی گم ہوگیا تو اس کی قدرومنزلت حکمرانوں کی نظر میں بڑھ گئی صاف نظر آرہا تھا کہ کہ اب سائفر کی گم شدگی ملک اور میڈیا کا سب سے بڑا مسئلہ قرار پائے گی ۔پہلے تو ایک ایف آئی آر کٹے گی پھر تحقیقاتی کمیٹی بنے گی ۔پھر ٹی وی چینل پرائم ٹائم میں سائفر کی گم شدگی پر زور وشور سے بحث کریں گے ۔چوری کی ڈور کا سرا تلاش کرنے پر زور ِکلام صرف ہوگا۔ممکن ہے کہ نتیجہ یہ برآمد ہو کہ سائفر عمران خان جیب میں ڈال کر لے گئے ہوں مگر یہاں یہ مشکل ہوگی کہ پھر قومی سلامتی کمیٹی نے کیا چیز دیکھ کر فیصلہ سنایا تھا کہ یہ سازش تو نہیں مداخلت ہے۔پوری قوم اسی وقت سے سازش اور مداخلت کی بھول بھلیوں میں گم ہے۔یہ وہ اجلاس ہے جو وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہوا تھا ۔وزیر اعظم ہائوس سے سائفر کی گم شدگی ثابت بھی ہوگئی تو صدر مملکت کی دراز اور چیف جسٹس کی الماری سے بھی کاپی حاصل کی جا سکتی ہے ۔حکومت نے چور کی مہربانی سے سائفر کا وجود تسلیم کرلیا یہ وہ کام ہے جو صدر عارف علوی نہ کراسکے جو بار بار حکومت اور عدلیہ سے سائفر کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے تھے ۔ سائفر کی گمشدگی کے بعد وہ لوگ بھی سائفر سائفر پکار رہے ہیں جن کے خیال میں یہ محمد حسین آزاد کے ”فسانۂ عجائب ”سے زیادہ کچھ نہیں تھا ۔ یوں عدمِ وجود سے وجود تک سائفر کا یہ سفرتحیر اور تجسس سے بھرپور فلم سے کم نہیں۔چور کی مہربانی سے کم از کم یہ ہوا کہ بدترین تقسیم کا شکار قوم اب اس نکتے پر متفق ہوگئی کہ سائفر نام کی ایک چیز موجود رہی ہے ۔یہاں سے ایک نئی بحث چل پڑے گی کہ سائفر مداخلت ہے یا سازش؟ اس کا فیصلہ تو جانے کب ہو مگر سائفر ایک حقیقت ہے اس کا فیصلہ ہوگیا ۔سائفر بھیجنے والوں نے کبھی واضح اور دوٹوک تردید نہیں کی ۔اس کے تخلیق کار امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا مسٹر ڈونلڈ لو نے کبھی اس کا انکار نہیں کیا ۔انکار کریں بھی کیوں یہ امریکہ کے سٹائل کے عین مطابق ہے ۔دنیا کی سب سے بڑی، بااثر اور اقوام متحدہ جیسے فیصلہ ساز اداروںکے اخراجات برداشت کرنے وا لی طاقت کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی بات منوانے کے لئے دھونس اور دبائو استعمال کرے یا پیار ومحبت کی بین بجا کر اور گیت گا کر مخاطب کا من موہ لے ۔جنرل مشرف کو دی جانے والی یہ دھمکی کیا کسی سائفر سے کم تھی کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ ۔کوئی ذی ہوش انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ عالی جاہ میں دہشت گردوں کے ساتھ ہوں ۔برسوں بعد اسی سوال کا عمران خان کو یوں سامنا کرنا پڑا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا چین کے ساتھ ۔عمران خان نے امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ امریکہ کی طرف سے زیادتی ہے کہ وہ دوسرے ملکوں پر دبائو ڈالے کہ آپ چین یا امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔امریکی سائفر سے پہلے عمران خان اور امریکہ کے درمیان کشمکش کا ایک پورا دور گزرا ہے ۔ سائفر تو اس کتاب کا عنوان ہے ۔امریکی اگر سائفر نہ بھی بھیجتے تو سٹیج” عمران فری” ہونے جا رہا تھا ۔سائفر امریکہ کا گناہ ِبے لذت اور عمران خان کی سیاست کے لئے آب ِحیات ثابت ہوا۔اس کتاب کو بلاعنوان بھی رکھا جاتا تو بھی امریکہ پاکستان میں اپنے مقاصد حاصل کر سکتا تھاکیونکہ مسلسل پس پردہ دبائو او ر دھمکیوں نے ان کا بہت سا کام آسان بنا دیا تھا ۔سائفرکا سفر اسی روز شروع ہوا تھا جب ڈونلد ٹرمپ کے ٹویٹ کے جواب میں عمران خان نے اسی لب ولہجے میںٹویٹ کیا تھا۔ٹرمپ تو من موجی انسان تھے اس معمولی سی تلخی کے بعد ان کی عمران خان کے ساتھ دوستی ہوگئی مگراس سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اب ان کا واسطہ ایک بدلے ہوئے اسلام آباد سے ہے۔شاید پہلی ریڈ لائن بھی اسی روز عبور ہو گئی تھی۔اس کے بعد اس سفر کے پڑائو اور موڑ آتے چلے گئے کے جن میں جوبائیڈن کی طرف سے ٹیلی فون سے گریز اور عمران خان کی طرف سے سی آئی اے کے سربراہ ولیم جے برن اور امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے ملاقات سے انکار ،سی پیک کی رفتار سست کرنے کے مطالبات اور انکارڈینئل پرل کیس کے ملزمان کی بریت کے عدالتی فیصلے پر دونوں ملکوں میں غزل اور جواب آں غزل کی تکرار ،واشنگٹن پوسٹ میں عمران خان کا مضمون اور امریکہ کی افغان پالیسی پر تنقید ،سقوط کابل پر غلامی کی زنجیریں توڑنے کا بیان ،کلایمیٹ چینج سمٹ میں عمران خان کو مدعو نہ کرنے کی ایک پوری داستان موجود ہے ۔اس پوری کہانی میں صاف نظر آرہاتھا کہ عمران خان کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آنا ممکن نہیں ۔ واقعات کی اس سیریز میں بہترماحول بنانا امریکہ کی شرط تھی تو سائفر کی صورت میںاس کا نشان چھوڑنا چنداں ضروری نہیں تھا شاید کئی دوسرے ”پاکستانوں” اور ”عمران خانوں”کو سائفر کی صورت میں یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ ہم واردات بھی کرتے ہیں اور نشان بھی چھوڑتے ہیں اور یہی ہماراسٹائل اور طرۂ امتیاز ہے ۔

مزید پڑھیں:  پاکستان کو ایک زرعی مُلک رہنے دیں