"چیٹ جی پی ٹی” کا خودکار سسٹم انسانوں کیلئے مفید ہے، ماہرین

ویب ڈیسک: چیٹ جی پی ٹی (جنریٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفارمر) ماڈل لینگویج کی ایک ایسی قسم ماہرین نے تیار کی ہے جو انسانوں کے کئی مشکل اور پرمغض مسائل کے حل میں کارآمد ہو اور اسی مقصد کیلئے اسے خاص طور پرعام فہم بول چال اور اسے سمجھنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ نہ صرف عام فہم بات چیت سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس مصنوعی ذہانت والے ایپ کو انسانی زبان کے ان پٹ کو سمجھنے اور اس کا جواب دینے میں مہارت حاصل ہے تاکہ کسی بھی موضوع کی معلومات کے حصول میں اس چیٹ بوٹ سے لوگوں کو آسانی رہے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت کی اس ایپلی کیشن "چیٹ جی پی ٹی” میں قدرتی زبان کے اعداد و شمار کا بڑا ذخیرہ موجود ہے اور یہیں سے یہ ایسے سوالات کے جواب دقیق انداز سے دیتا ہے جو واقعی نادر ہوتے ہیں۔
اس ایپ میں ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ اس کی قابلیت اور مصنوعی ذہانت صارفین کو بروقت اور ٹھیک جواب دینے میں نمایاں ہے۔ خودکار طریقہ کار اور ٹرانسفارمر نیٹ ورک جیسی تکنیک کے تحت یہ ماڈل ڈیزائن کیا گیا ہے۔
چیٹ بوٹس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ کسی زبان کا ترجمہ کرنے کے علاوہ ہرقسم کی معلومات مہیا کر سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی چیٹ جی پی ٹی کی کچھ خامیاں بھی ہیں۔
اگرچہ محدود معلومات کی جانکاری کیلئے اسے ایسے ڈیزائن کیا گیا ہے جو سیاق و سباق کے لحاظ سے مناسب جواب دے سکے لیکن یہ بات چیت مکمل طور پر سمجھنے کیلئے ابھی بہت کم ہے۔ اس میں مزید اپ ڈیٹس متوقع ہیں۔ خاص طور پر اگر اس سے کی جانی والی گفتگو پیچیدہ یا مبہم ہو تو عین ممکن ہے کہ یہ غلط یا غیر متعلقہ ردعمل کا باعث بنے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسے گفتگو کو سمجھنے کیلئے بھی ابھی تھوڑا وقت لگے گا کیونکہ اس سے بعض اوقات کی جانیوالی بات چیت مسئلہ پیدا کر سکتی ہے جو ڈیٹا اس میں موجود ہے یا اسے فراہم کی جاتی ہے اس سےیہ نادانستہ طور پر اس ڈیٹا کے اندر موجود تعصبات یا دقیانوسی تصورات کو اٹھا سکتا ہے جو متعصبانہ یا جارحانہ ردعمل کا باعث بن سکتا ہے جو قطعی درست نہیں۔
چیٹ کے دوران جی پی ٹی درست سیاق و سباق کے مطابق بات کرنے یا الفاظ بنانے کیلئے اچھا ہو سکتا ہے لیکن کسی بات کا مناسب جواب یا بات چیت میں جذباتی اشارے کو سمجھنے اور ان کا جواب دینے میں ابھی مشکلات کا شکار ہے اور اسی سے اس کے روبورٹک ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ان میں سے بہت سی حدود کو محتاط انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے جو بات چیت کے نظام کے نفاذ کے ذریعے بڑھایا جا سکتا ہے اور اس پر ماہرین مزید کام کر رہے ہیں۔