خوراک کی کمی کاعالمی مسئلہ اور پاکستان

دنیا کی آبادی میں اس وقت کل نفوس کی تعداد اٹھ ارب سے زیادہ ہے آبادی کی زیادہ تعداد ایشیا میں رہائش پذیر ہے دنیا کی کل آبادی کا سب سے بڑا مسئلہ خوراک ہے زرعی اجناس ، گوشت اور سمندر سے حاصل ہونے والی مچھلیوں اور دیگر ذرائع سے انسان اپنی خوراک کا انتظام کرتا ہے دنیا کی چالیس فیصد آبادی کو خوراک کے حوالے سے مسائل ہیں جن میں زیادہ تر افراد کا تعلق تیسری دنیا کے غریب ممالک سے ہے ۔خوراک کی کمی کی کئی وجوہات ہیں ، افریقہ اور دیگرکئی خطوں میں خشک سالی اور ملک کے کچھ حصوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی بارشیں اس سلسلے میں بنیادی کردارادا کرتی ہیں ، دنیا کے ان ممالک میں جہاں امن و امان کے مسئلے ہیں وہاں بھی خوراک کی قلت دیکھی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں غربت کا بھی بہت بڑا کردار ہے جن ممالک میںغربت ہے وہاں کی اکثریتی آبادی خوراک کی کمی کا سامنا کررہی ہے ۔اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام ہر برس دو دفعہ پوری دنیا میں خوراک کے حوالے سے اپنے جائزے پیش کرتی ہے جس میں انسانوں کے لیے خوراک کی دستیابی اور کمی پر اعدادو شمار کے ذریعہ معلومات درج ہوتی ہیں ۔ ورلڈ فوڈ پروگرام سالانہ تیس بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ان خطوں کی امداد پر خرچ کرتی ہے جہاں خوراک کی کمی ہوتی ہے ۔کبھی کبھی اس سے کئی گنا زیادہ بھی خرچ کرنا پڑ سکتا ہے جب کال پڑجائے یا کوئی بہت بڑی قدرتی آفات آجائے یا جنگ کی صورتحال پیدا ہو ۔ جو جائزہ ابھی شایع ہوا ہے اس میں خطرے کی بات یہ ہے کہ اس میں پاکستان کو بھی ان ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں ستمبر 2023 تا دسمبر 2023 خوراک کی شدید قلت ہوگی ۔ دیگر ممالک میں افغانستان ، ایتھوپیا ، کینیا، کانگو، شام اور میانمار شامل ہیں ۔باقی ممالک کئی برسوں سے مسلسل اس فہرست میں شامل ہیں البتہ پاکستان کا نام پہلی مرتبہ اس شدید خطرے والی لسٹ میں شامل کیا گیاہے ۔ پاکستان جسے ہم زرعی ملک قرار دیتے ہیں جہاں نہری پانی کا دنیا میں سب سے بڑا نیٹ ورک موجود ہے جہاں پانی کے وسائل دنیا کے بیشتر ممالک سے زیادہ ہیں ۔ وہاں خوراک کی قلت کا پیدا ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ میں ملک میں حالیہ سیلابوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جس کی وجہ سے 35 فیصد زرعی رقبے کو نقصان پہنچا ہے ۔اس کے علاوہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بننے والی صورتحال اور 75.5 ارب امریکی ڈالر کے قرضے کی اس برس واپسی کی وجہ سے بھی خوراک پر حکومتی سرمایہ کاری کے متاثر ہونے کو بھی ایک بڑی وجہ بتایا گیا ہے پھر مہنگائی کی شرح جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہے کو بھی اس کی وجہ بتایا گیا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید ایک تہائی سے بھی کم رہ گئی ہے ۔ اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ذخیرہ اندوزی اور پاکستان سے افغانستان سمگلنگ بھی اس کی بڑی وجوہات ہیں ۔ پاکستان گزشتہ کئی برسوں میں چینی اور گندم کی قلت کا شکار ہوا ہے ،حیرت کی بات یہ ہے پاکستان اپنی ضرورت سے بہت زیادہ چینی پیدا کرتا ہے مگر چینی بنانے والے بہت ہی بااثر لوگ ہیں جو چینی کی مصنوعی قلت پید اکرکے اس کی قیمت اصل کے مقابلے میں دگنی سے بھی زیادہ کرکے سالانہ کھربوں روپے کماتے ہیں ۔ماضی قریب میں چند برسوں میں کھرب پتی بننے والے ایک مشہور سیاست دان نے تو کمال ہی کردیا تھا چینی پاکستان سے بھارت برآمد کرکے وہاں سے واپس پاکستان لاکر نہ صرف حکومت سے کھربوں روپے کی سبسڈی حاصل کی بلکہ قیمتوں کو بھی کئی گنا بڑھا کر کھربوں روپے کمائے مگر چونکہ چینی کے اس کاروبار میں موجودہ حکمران ، سندھ کے حکمران اور سابق حکمران سب برابر کے حصہ دار ہیں اس وقت ملک میں شوگر ملز کی تعداد 51 ہے جن کے مالکان یا تو اسمبلیوں کے ممبر ہیں یا ان ممبران کے قریبی رشتہ دار ہیں ۔ اس لیے گزشتہ کئی دہائیوں سے شوگر ملز مافیا ملی بھگت سے سرکاری خزانے سے کھربوں روپے کھا گئے اور ٹیکسیوں میں چھوٹ کی مد میں اس سے بھی زیادہ ڈکار گئے اور عوام کو مہنگی کرکے فروخت سے یہ جو ان کو فائدہ ہوا اس کا حساب ممکن ہی نہیں ہے حالانکہ اس وقت عالمی مارکیٹ کو چھوڑ کر اگر برازیل اور ارجنٹائن سے ہم چینی خریدیں تو ہمیں اس وقت یہ چینی 34 روپے کلو کے حساب سے کراچی کی پورٹ پر مل سکتی ہے لیکن ہم نے ان چند خاندانوں کو پالنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے اس لیے ملک کے مفاد میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں کریں گے ۔ خوراک کی عالمی کمی میں ایک وجہ یوکرین روس جنگ بھی ہے اس لیے کہ دنیا میں یوکرین گندم برآمد کرنا والا بڑا ملک ہے مگر حالیہ جنگ کی وجہ سے وہاں گندم کی پیدوار بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے ۔ دنیا میں اس وقت جو خوراک کے حوالے سے خدشات پیدا ہورہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے انڈیا نے سفید چاول کی برآمد پر پابندی عائد کردی ہے جس سے دنیا میں چاولوں کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے ۔دنیا کے دیگر ممالک بھی زرعی اجناس کی برآمد کو کم کررہی ہیں ۔ پاکستان میں خوراک میں بہت بڑا حصہ زرعی اجناس کے ساتھ ساتھ برائلر مرغیوں کا بھی ہے جس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے اس کی وجہ مرغیوں کو دینے والی خوراک کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ کو قرار دیا جارہا ہے جس کا سبب ڈالر کی قیمت کا مسلسل بڑھنا بتایا جارہا ہے ۔برائلر مرغیوں پر ایک مخصوص قبضہ مافیا کا کنٹرول ہے جو حکمرانوں کے بہت ہی قریبی لوگ ہیں وہ اپنی من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں اور اور کرپٹ سسٹم کی وجہ سے اس وقت پاکستان میں دنیا کی نسبت برائلر مرغی کی قیمت بہت زیادہ ہے لوگوں کی قوت خرید مہنگائی کی وجہ سے کم ہورہی ہے اس وجہ سے اب زیادہ تر لوگ مرغی کے گوشت خریدنے کی سکت نہیں رکھتے جبکہ مہنگائی کی وجہ سے سبزیوں کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھ چکی ہیں ۔ سب سے زیادہ قیمتیں دالوں کی بڑھی ہیں اور پاکستان اسی فیصد سے زیادہ دالیں درآمد کرتا ہے ۔اس لیے اس وقت ملک میں خوراک کی فراہمی بہت کم ہے جس کی ایک وجہ لوگوں کی قوت خرید کا کم ہونا ہے ۔ اگر لوگوں کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے تو مارکیٹوں میں اشیائے خوردونوش کی
فوراً قلت پڑجائے گی ۔ کھانے پینے کی اشیا ء کی قیمتیں عالمی طور پر بھی بڑھی ہیں لیکن پاکستان میں بے انتہا کرپشن کی وجہ سے یہاں کی شرح دنیا کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے ۔یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے لیکن ابھی ہم اس کا ادرک نہیں کررہے ملکی سطح پر ہماری کوئی ایسی تھینک ٹینک نہیں ہے جو مستقبل کی پیش بینی کرسکے اور اس کے لیے کوئی لائحہ عمل بنا سکے دنیا نے کئی ماہ پہلے سے اس مشکل صورتحال سے نبٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی بنا لی ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوں گے مگر ہمارے ہاں نان ایشوز پر ایک دوسرے سے مشت و گریبان عوام اور اشرافیہ کو جب پانی سر سے اونچا ہوجائے گا تب پتہ چلے گا ۔ اس لیے کہ غربت کی لکیر بہت نیچے چلی گئی ہے اس پر لاقانونیت میں آئے رو ز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔پیدوار کے لیے دستیاب زرعی زمینوں پر کالونیاں بن رہی ہیں صرف چارسدہ میں پندرہ ہزار جریب زرعی زمین پر ایک نئی ہاوسنگ سکیم بن رہی ہے پشاور کے اطراف میں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین پر مشہور ہاوسنگ سوسائٹیاںقابض ہوچکی ہیں ، لاہور ، ملتان ، گوجرانولہ،سیالکوٹ ، گجرات ، فیصل آباد، شیخوپورہ، اٹک ، پنڈی اور دیگر شہروں کے اطراف میں لاکھوں ایکڑ کی زرعی زمین ہاوسنگ سوسائٹیاں اپنے قبضے میں لیکر ان پر کنسٹرکشن شروع کرچکی ہیں جس کے نتیجے میں زرعی اجناس کی پیدوار کے لیے دستیاب رقبہ بہت زیادہ کم رہ گیا ہے اور رہی سہی کسر ملک میں موسیمیاتی تبدیلی سے سیلابوں نے پوری کردی ہے ۔ ان ہاوسنگ سوسائٹیز کی وجہ سے اربن ائزیشن کا عمل بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے رورل ایریاز میں افرادی قوت بہت زیادہ کم ہورہی ہے یوں وہاں موجود زرعت کے شعبہ میں افرادی قوت کی شدید کمی پیدا ہورہی ہے اور ان بڑی آبادیوں کی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح میں بہت تیزی کے ساتھ کمی واقع ہورہی ہے جس سے آنے والے برسوں میں یہ ملک ناقابل رہائش بن جائے گا ۔ اگر ارباب اختیار اس ملک کو اپنا سمجھتے ہیں تو انہیں ان مسائل کا سد باب کر نا ہوگا بصورت دیگر جو کل کو صورتحال ہوگی وہ اتنی بھیانک اور خوفناک ہے کہ اس کے تصور سے ہی دل میں ہول اٹھتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  دبئی میں اربوں کی جائیدادیں!