اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کافیصلہ

ہمارے نمائندے کے مطابق خیبر پختونخوا میں میں پی ٹی آئی کے سوا کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے پاس صوبائی اور قومی اسمبلی کے تمام حلقوں کیلئے امیدوار موجود نہیں ، اے این پی اور جے یو آئی مخصوص اضلاع میں ٹکٹ جاری کرتی ہے اور پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی ہزارہ اور ملاکنڈ تک محدود ہوچکی ہیں۔ اس صورتحال میں سیاسی جماعتوں کو بعض اضلاع میں ایک دوسرے کے امیدواروں کو سپورٹ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ایسے میں آئندہ دنوں کے دوران اتحادی سیاسی جماعتوں کا الیکشن کیلئے بھی سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کا یا مقامی تنظیموں کے ذریعے ضلع اور تحصیل کی سطح پر اتحاد بنانے امکان ہے۔ خیبرپختونخوا میں اس مرتبہ بھی مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم یعنی ایم ایم اے یا متحدہ مجلس عمل کے انتخابی نشان کتاب پر الیکشن میں اترنے کیلئے رابطے کر رہی ہیں جبکہ پرویز خٹک کی نئی جماعت کی بھی ہزارہ اور جنوبی اضلاع میں سیاسی خاندانوں کے ساتھ اتحاد کی منصوبہ بندی ہے تاہم دوسری جماعتیں الگ الگ الیکشن لڑیں گی اور بعض اضلاع میں ووٹ بینک کے لحاظ سے ایک دوسرے کے سامنے امیدوار نہیں کھڑا کریں گی۔معروضی صورتحال میں نئی صف بندی سیاسی جماعتوں کا حق ہے اصولی وقانونی اور دستوری طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو کھل کراپنے منشور کا اظہار کرنے اور سیاسی سرگرمیاں کرنے کی آزادی ہونی چاہئے اگر ایسا ہوا توصوبے میں ساری سیاسی جماعتوں کا مل کر بھی تحریک انصاف کامقابلہ کرنا دشوار نظر آتا ہے اگرچہ پی ٹی آئی کا ایک مضبوط سمجھا جانے والا دھڑا الگ ہوگیا ہے لیکن دم تحریر ان کی جانب سے صوبے میں کوئی بڑا سیاسی اجتماع منعقد کرکے اپنی قوت ثابت کرنے کی سعی نظر نہیں آئی اور اس کا امکان بھی کم نظر آتا ہے صوبے میں پی ٹی آئی کی تطہیر کا یہ عمل کو اگر تحریک انصاف میں تطہیری عمل کے طور پر لیا جائے اور اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے حقیقی کارکنوں کو آگے آنے کا موقع ملے تو یہ ”پہ بدو کہ خہ شو” کے مصداق ثابت ہو سکتا ہے اس کی ایک جھلک متھرا میں بلدیاتی انتخابات کے موقع پرسامنے آچکا ہے تحریک انصاف میں اگر ٹکٹوں کی منصفانہ تقسیم اور اس کے نتیجے میں دھڑے بندی نہ ہوئی توباقی اثرات سے وہ نکلنے میں کامیاب ہوسکتے ہیںقبل ازیں بھی اگرچہ گزشتہ انتخابات کے موقع پر بھی ٹکٹوں کی تقسیم منصفانہ طور پر نہ ہوئی مگر اس وقت تحریک انصاف چڑھتے سورج کی مانند تھی اس لئے یہ غلطی نہ دہرائی گئی تو صوبے کی معروضی سیاسی صورتحال میںاسے کنارے بٹھا دینا شاید ممکن نہ رہے۔

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں