ایک نگران کابینہ کی رخصتی دوسرے کی آمدکا انوکھا موقع

نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان نے اپنی کابینہ کے اراکین کوچائے پر بلا کر واضح کیاکہ انہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے خط موصول ہوا ہے جس میں واضح طور پر نگران کابینہ کی سیاسی وابستگی کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے ایسے میں صوبے کا انتظام چلانے کے لئے غیر جانبدار افراد کی ضرورت ہوگی اور سیاسی وابستگی والے افراد کو کابینہ چھوڑنا پڑے گی۔امرواقع یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بعد قائم ہونے والی نگران کابینہ صوبے کی تاریخ کی متنازع ترین کابینہ رہی جو اپنے انجام کو پہنچ گئی ۔ پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتوں کے نامزد کردہ افراد پر مشتمل نگران کابینہ آئین کے مطابق صرف3مہینے کیلئے تشکیل دی گئی تھی لیکن اس نے6مہینے سے زائد وقت گزار دیا۔ نگران صوبائی کابینہ پہلے دن سے ہی مختلف تنازعات اور الزامات کی زد میں رہی اور بیشتر وزراء اور مشیروں کے بارے میں اے ٹی ایم کی اصطلاح استعمال کی جاتی رہی جبکہ کرپشن کے الزامات بھی لگتے رہے بعض جماعتوں کے اندر بھی نگران کابینہ کے ارکان پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا اور ایسی باتیں ہوتی رہی ہیں کہ نگران کابینہ میں پارٹی کے لئے خدمات کو ایک طرف رکھتے ہوئے محض متمول افراد کو نوازا گیا ہے ۔نگران کابینہ میں دھڑے بندی بھی عروج پر رہی ۔سرکاری ملازمین کی پوسٹنگ ٹرانسفرز سیاسی جماعتوں کے قائدین کی مرضی کے مطابق ہورہی تھی اس تاریخی کابینہ میں صوبہ بھر سے بعض ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا جن میں سے کئی عہدیدار گزشتہ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے امیدوار تھے اور چوتھے اور پانچویں نمبر پر آئے تھے جبکہ بعض عہدیدار تو یونین کونسل اور گلی محلے کے کونسلر بھی نہیں بن سکتے تھے لیکن مخصوص وابستگیوں کی وجہ سے ان لوگوں کو قد کاٹھ سے بڑے عہدے دئیے گئے اور اب وہ اس بات پر خوش ہیں کہ اب وہ اپنے نام کے ساتھ سابق وزیر اورسابق مشیر کا لاحقہ استعمال کرسکیں گے۔یہ سارا عمل جیسے بھی ہے تمت بالخیر کے زمرے میں آتا ہے جوصورتحال رہی اس کی تحقیقات اور احتساب کی بھی توقع نہیں اے ٹی ایم کی اصطلاح سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاسی مخالفین کے حوالے سے استعمال کرنے کی تو روایت تھی مگر نگران دور میں بلکہ نیم نگران و نیم سیاسی دور میںجس قسم کے افراد کو وزارتیں دی گئیں اور ان چند مہینوں میں صوبے میں جو روایات قائم کی گئیں خود ان جماعتوں کے”پروردگان” نے ایک دوسرے سے جو رویہ روا رکھا اور بیورو کریسی سے جو برتائو کیاگیا وہ صوبے کے سیاسی باب کا ایک سیاہ باب کہلائے گا اور جس طرح کا انوکھا تجربہ کیا گیا وہ بھی خیبر پختونخواہی میں ہونا تھاجس کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کے ان قائدین پرعاید ہوتی ہے جوخاندان عزیز و اقارب اور مفادات سے ہٹ کر کچھ نہیں دیکھتے صوبے میں مفاداتی قسم کی جس سیاست کا مظاہرہ ہوا ہے اس کا ابھی نہیں تو کچھ بعد سراسر فائدہ پاکستان تحریک انصاف ہی کو جائے گا صوبے کی سیاست اور عام انتخابات میں اس کابینہ کی تشکیل اور اے ٹی ایمز کا بیانیہ کامیابی سے استعمال ہوسکتا ہے جو اس کے ذمہ دار جماعتوں کو دفاعی پوزیشن پر لے جا سکتی ہے اور اس صورتحال کے عوام پر اثرات کو روکنا بہت مشکل ہو گا صوبے میں تحریک انصاف تمام تردبائو کے باوجود ایک مرتبہ پھر محولہ غلطیوں کی وجہ سے کھل کر آنے کی پوزیشن پر آگئی ہے بشرطیکہ اس کے حوالے سے مزید سختیاں سامنے نہ آئیں اور پی ٹی آئی مزید توڑ پھوڑ کا شکار نہ ہو جبکہ اس کا بینہ کی رخصتی اور جانبدار سیاسی کابینہ کے بعض ارکان کی بالخصوص رخصتی سے بھی تحریک انصاف کے ہی مستفید ہونے کا امکان نظر آتا ہے سیاسی معاملات سے قطع نظر ایک دلچسپ صورتحال یہ بھی ہے کہ اس وقت صوبے میں سیاسی حکومت کا وجود نہیں حزب اختلاف بھی نہیں ایسے میں نگران کابینہ کے اراکین کی نامزدگی کون کرے اگر اس عمل میں بھی سیاسی گورنر کی مداخلت ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔گورنر کی بھی رخصتی کی افواہیں ہیں ان کے متنازعہ ترین ہونے میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں ایسے میں نگران کابینہ نگران وزیر اعلیٰ”بعض دیگر” کی مشاورت ہی سے شاید تشکیل دیں بہرحال کابینہ جوبھی تشکیل دے کم از کم اس میں ایسے باکردار اور نمایاں افراد کو شامل کیا جائے جن کا معاشرے میں عزت و مقام ہواور وہ غیر جانبداری کے اصول پر پورا اترتے ہوں آمدہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے یہ عمل نہایت ضروری ہے نگران کابینہ کے ممکنہ ناموں کا اگرافشاء کرکے اس حوالے سے عوامی ردعمل اور اعتراضات کا جائزہ لینے کے بعدنام فائنل کر لئے جائیں تو قابل قبول عمل ہوگا اورکابینہ بننے کے بعد اس پر بلاوجہ کی تنقید اور پراپیگنڈہ سے بھی بچا جا سکے گا۔

مزید پڑھیں:  اس طرح سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی؟