بازیچہ اطفال بنا آئین ہمارے سامنے

پچھلے ہفتے کے دوران قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے سے چنددن قبل وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بھجوائی گئی سمری کی منظوری دیتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کردی جس کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی۔ شہباز شریف نگران وزیراعظم کے تقرر تک اپنے منصب پر برقرار رہیں گے۔ پارلیمانی امور کی وزارت نے صدر مملکت کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کئے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے. مقررہ مدت سے چند دن قبل قومی اسمبلی تحلیل کئے جانے کی صورت میں اب 90دن میں انتخابات کا انعقاد لازم ہے۔ حکومت کی رخصتی سے چند دن قبل مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری کی منظوری اور آئندہ عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں پر کرانے کے فیصلے سے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ عام انتخابات مقررہ 90دن میں نہیں ہوپائیں گے۔ اس آئینی معاملہ کا حل کیسے تلاش کیا جائے گا اور کیا نگران حکومت یا الیکشن کمیشن مقررہ مدت میں اضافہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ؟ گزشتہ شب رخصت ہونے والی حکومت کے کسی بھی ذمہ دار نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا جس سے یہ تاثر مزید پختہ ہوا کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے جس کی پردہ پوشی کی جارہی ہے۔ دوسری جانب تادم تحریر نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر جن ایک دو ناموں کے بارے میں اتفاق رائے کی خبر دے کر ایک صاحب کو پروٹوکول فراہم کرنے کی خبر چلائی گئی وہ فی الوقت درست ثابت نہیں ہوئی۔ دستوری پوزیشن یہ ہے کہ اگر نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہ ہوسکا تو پہلے مرحلہ پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا۔ عدم اتفاق کی صورت میں نگران وزیراعظم کی تقرری کا اختیار الیکشن کمیشن کو مل جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اسمبلی اور کابینہ تحلیل کئے جانے سے قبل نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے کرلیا جاتا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کی صبح یہ امید ظاہر کی کہ ایک آدھ دن میں نگران وزیراعظم کے نام کا اعلان کردیا جائے گا۔ اسی اثنا میں یہ اطلاعات بھی ہیں کہ عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں پر کرانے کے معاملے میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست پر وفاق اور الیکشن کمشن کو نوٹسز جاری کردیئے گئے ہیں گو کہ اس درخواست بازی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ آئین میں صریحا وضاحت کیساتھ یہ امر طے شدہ ہے کہ مردم شماری کی منظوری اور نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد الیکشن کمیشن پابند ہے کہ وہ انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیاں کرائے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نگران حکومت کی مدت اور حلقہ بندیوں کا معاملہ چونکہ ابہام پیدا کررہا ہے اس لئے نئی حلقہ بندیوں پر الیکشن کے لئے عدالت جانے والے درخواست گزار اصل میں کسی کے سہولت کار ہیں۔ ظاہر ہے کہ عدالت الیکشن کے طریقہ کار اور قبل ازیں حلقہ بندیاں کروانے کے معاملے کو تبدیل نہیں کرسکتی اس صورت میں فیصلہ یقینا حلقہ بندیوں کے حق میں آئے گا جس سے نگران حکومت کی مدت کو 90دن سے بڑھاکر 120یا 150 دن کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ معاملہ یہیں تک رہے اور الیکشن کمشن آئینی تقاضوں سے پہلو تہی برتنے کی بجائے اپنے فرائض سے سبکدوش ہو۔قومی اسمبلی کی تحلیل کے لئے صدر مملکت کو سمری بھجوائے جانے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کیا کہ سابق حکومت کی ناکامیوں کا بوجھ بھی ہمارے اوپر آن پڑا۔ پچھلے سولہ ماہ مشکل ترین تھے 38سالہ کیریئر میں اتنا کڑا امتحان اور مشکل دور نہیں دیکھا۔ بصدِ احترام انہیں یہ یاد دلانا ازبس ضروری ہے کہ سولہ ماہ قبل وہ اور ان کے اتحادی اس وقت کے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاتے وقت قوم کو یہ بتارہے تھے کہ پی ٹی آئی نے ملک کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پی ڈی ایم اور اتحادی ملک کے وسیع تر مفاد میں تحریک عدم اعتماد لائے ہیں۔ یہ بات درست تھی تو پھر انہیں سولہ مہینوں کے مشکل حالات، امتحانوں اور پچھلی حکومت کی تباہیوں کا رونا رونے کی بجائے یہ بتانا چاہیے تھا کہ پی ڈی ایم اور اتحادیوں نے جو بلندبانگ دعوے کئے تھے وہ پانی کا بلبلہ کیوں ثابت ہوئے۔ وزیراعظم نے 9مئی کے واقعہ کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک سیاسی جماعت اس پوزیشن میں تھی کہ وہ چند شہریوں کے کنٹونمنٹ میں ہنگامہ آرائی کرکے بغاوت برپا کردے؟ 9مئی اگر واقعتا کسی بغاوت کا حصہ تھا تو اس کی داخلی کرداروں کے ساتھ کیا ہوا ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ اس کی وضاحت اور درست معلومات عوام کو فراہم کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پچھلے تین سوا تین ماہ سے میڈیا اور ماضی میں فوج سے تعلق رکھنے والے چند افراد جو بیرون ملک بیٹھے ہیں اس حوالے سے بلندبانگ دعوے کررہے ہیں۔ پروپیگنڈے کے اس دور میں لوگوں کی بڑی تعداد ان مفرورں کے دعوئوں کو حقیقت پر مبنی سمجھتی ہے جس کی وجہ سے ایک سیاسی جماعت کے ہمدرد سوشل میڈیا پر مسلسل منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم نے مختلف حوالوں سے گزشتہ روز جو گفتگو کی وہ اپنی جگہ بجا مگر انہیں اپنی حکومت کی ناکامیوں اور اپنے دور میں پیدا ہونے والے ان سنگین مسائل کا بھی اعتراف کرنا چاہیے تھا جن سے عوام زندہ درگور ہوگئے۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو سزا ہونے پر انہیں خوشی نہیں ہوئی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے مخالف سیاسی جماعت کے سربراہ کو ہونے والی سزا پر جشن منایا۔ لیگی رہنما یہ کہتے دکھائی دیئے کہ ماضی میں اس جماعت نے باجوہ رجیم کے ساتھ مل کر ہماری قیادت کے ساتھ جو سلوک کیا اس پر یہ رویہ فطری امر ہے۔ ہماری دانست میں پی ڈی ایم و اتحادیوں کے سولہ ماہ کا دور اقتدار مایوسیوں اور مسائل کے سوا کچھ نہیں دے سکا۔ پی ڈی ایم اور اتحادی رہنما سابق حکومت کی جن پالیسیوں کو فساد کی جڑ قرار دیتے رہے ان پالیسیوں آئی ایم ایف سے معاہدے وغیرہ پر انہوں نے بھی ایمانی جذبہ کے ساتھ ہی عمل کیا۔ بہرطور ہم امید کرتے ہیں کہ اولا نگران وزیراعظم کے نام پر جلد اتفاق ہو اور ان کی تقرری عمل میں لائی جائے ثانیا آئندہ عام انتخابات کے معاملے میں آئینی تقاضوں سے کسی قیمت پر انحراف نہیں ہونا چاہیے۔ مستقبل میں یہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہوگی کہ کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر دھکیلنے کے لئے سہولت کاری نہ کریں بلکہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنا پروگرام عوام کے سامنے رکھیں ا ور رائے دہندگان صاف ستھرے شفاف ماحول میں حق رائے دہی استعمال کرکے مستقبل کی قیادت کا فیصلہ کریں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شفاف و غیرجانبدارانہ انتخابات سے ہی اس سیاسی کشیدگی کو دفن کیا جاسکتا ہے جو بعض لیڈروں اور ان کے حامیوں کی زبان درازیوں کی وجہ سے ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ امید واثق ہے کہ وطن عزیز اور عوام الناس کو کسی امتحان سے دوچار نہیں ہونا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں