قابل توجہ امر

آج ایک بڑی مشکل کا سامنا ہے کیونکہ ایک مہربان کا اصرار ہے کہ میں خیبر پختونخوا کے روایتی معاشرے کے ایک ایسے پہلو پر کالم لکھوںمشکل اس لئے ہے کہ پشتونوں کی یہ خاصیت اور عادت کم از کم میرے لئے بہت کشش کا باعث ہے ابھی شاید پختونوں کے معاشرے کو دنیا کی ہوا نہیں لگی اور میری دعا ہے کہ یہ معاشرہ سدا زندہ و پائندہ رہے اس کی خوبیوں میں اضافہ ہو اور اس کی خرابیوں میں کمی آتی جائے یہ خیبر پختونخواکا معاشرہ ہی ہے جہاں لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لئے وقت ہے اور وہ تکلیف و زحمت اٹھا کر دوسروں کا حال احوال پوچھنے جاتے ہیںعزیز و اقارب سے ملاقاتیں اور دوستوں کی خبر گیری سے احتراز دیکھنا ہو تو لوگ لاہور یا اسلام آباد آئیں جہاں کے معاشرے میں مروت نام کو نہیں رہی میں پشاور میں کافی ماہ وسال سروس کر چکی ہوں اور مجھے صوبے کے لوگوں’ معاشرے اور خواتین کو عزت واحترام دینے کی روایت سے بخوبی واقفیت ہے علاوہ ازیں بھی میرے عزیز و اقارب میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں نیز میرے کئی اچھے رفقائے کار بھی خیبر پختونخوا ہی سے ہیں آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے اس روایت کا تو ذکر نہیں کیا جس کی خود تعریف کر رہی ہیں اور مہربان قاری نے اس کی مشکلات بیان کرنے کا کہا ہے یقینا ہر معاملے کے دو پہلو ہوتے ہیں اور تصویر کے دو رخ ہیں تصویر کا ایک رخ میں دیکھ رہی ہوں مگر دوسرا رخ بھی دیکھنے اور احساس کرنے کامعاملہ ہے مہمان نوازوں کی سرزمین خیبر پختونخوا میں جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو دور دور سے لوگ اس کی بیمار پرسی کے لئے آتے ہیں اور بیمار پرسی باعث ثواب اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے لیکن اگر اسے سنت کے مطابق اور پیغمبر اسلامۖ کی تعلیمات کے مطابق انجام دیا جائے تو یقینا باعث فرحت ہے سنت کے مطابق بیمار پرسی بس سلام دعا حال احوال پوچھ کر جلد سے جلد رخصت لینا ہے گھر والوں اور خاص طور پر بیمار شخص کے آرام کا خیال رکھنا ہے مگر ہمارے معاشرے میں یا تو سرے سے نظر انداز کرنے والا اور لاتعلقی کی صورتحال ہے یا پھر مزاج پرسی کے نام پر میلہ لگانا گھنٹوں بیٹھ کر کھانا کھا کر چائے پی کر ہی رخصت ہونے کا نام بیمار پرسی رکھا گیا ہے جو خلاف ادب اور خلاف سنت ہے آپ جس کے گھر جا رہے ہیں ظاہر ہے وہ تو مہمان سمجھ کر ہر ممکن سیوا کرنے کی کوشش کرے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے لیکن خود سوچیں کہ آپ کسی بیمار کے پاس گھنٹوں بیٹھیں گپ شپ لگائیں کھانا کھائیں چائے شربت پی کر بیٹھے رہیں تو مریض ہی بے آرام نہیں ہوگابلکہ یہ گھر والوں کے لئے بھی دوہری پریشانی کا باعث ہو گا پرانے وقتوں کی روایات اور بات اور تھی اب حالات بدل چکے مریض اور گھر والوں کی بے آرامی اپنی جگہ آپ اگر کسی عام آدمی نیم متوسط اور متوسط طبقے کے کسی چھوٹے کاروباری یا ملازم پیشہ شخص کے گھر گئے ہیں تو ایک لمحے کو ان کی مالی حالت ومشکلات اور اس ہوشربا مہنگائی میں مہمان نوازی پر اضافی اخراجات کا اپنے ذہن میں ہی اندازہ لگائیں اور یہ دن میں دو تین تین چار چار مرتبہ اور ہفتوں چلنے والے اس سلسلے کا حساب لگائیں تو مہینے کا خرچہ دنوںمیں نکلتا دکھائی دے گا بیماری اور علاج پر اخراجات اورمہمان داری کے اضافی اخراجات برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ایسے میں مزاج پرسی جیسا نیک اور سعد کام کس قدر مشکل اور باعث زحمت بن جاتا ہے ایسے ہی حالات سے دو چار شخص ہی نے اس طرف توجہ دلانے کی فرمائش کی ہے ان پر کیا گزر رہی ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جواس طرح کے حالات سے خود دو چار ہوں میں ایک مرتبہ پھر مزاج پرسی اور تیماری کی روایت کی تحسین کے ساتھ اس دوسرے پہلو کا خیال کرکے اس روایت کو جاری رکھنے پر زور دوں گی یہ ہمارے معاشرے کا حسن اور شرف انسانیت ہے وگر نہ بڑے شہروں میں تو لوگ تیمار داری توکجا میت کو کندھا دینے کے لئے بھی بس قریب ہی کے لوگ آجاتے ہیں جن کے لئے میت والے گھر میں بعد ادائیگی جنازہ کھانے کا باقاعدہ انتظام کرنا پڑتا ہے جبکہ مجھے ذاتی طور پر اس کا علم ہے کہ میرے کئی مہربان جوجنازے میں شرکت کے لئے پشاور سے اسلام آباد آئے کفن دفن کے عمل میں بھی آخر تک شریک رہے مگر کھانے سے یہ کہہ کر معذرت کرکے رخصت لی کہ یہ ان کی روایات کے مطابق اور ان کی دانست میں میت کے گھروالوں پر ظلم کے مترادف ہے ظاہر ہے جن کو اپنے کھانے سونے جاگنے کا ہوش نہ ہو اور سوگوار ہوں ان کے گھر کے کھانا اہل خرد کے گلے سے تو نہیں اتر سکتا بعد میںکسی موقع پر میں نے پوچھا کہ وہ تیار کھانا چھوڑ کر کیوں گئے تھے تو جواب ملا کہ بھوک تو بہت لگی تھی لیکن وہ سوگ میں بھی شریک ہوں اور ولیمہ کے بھی مزے اڑائیں اس قسم کی حرکت کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے کھانا تو انہوں نے واپسی پر پہلی دستیاب ریسٹورنٹ میں بہرحال کھا ہی لیا تھا میرا مقصد کوئی معاشرتی تقابل یا کسی کو اچھا برا کہنا ہر گز نہیں معاشرتی قدروں کی بات ہے ہر دو معاشروں کی جھلک دکھانی ہے البتہ بڑے شہروں میں بیمار پرسی کے لئے اگر کوئی جائے تو زیادہ وقت لگانے کا رواج نہیں کیا خیبر پختونخوا میں بھی بعض وہ لوگ جو گھنٹوں بیمار کے پاس اور اس کے گھر میں بیٹھے رہتے ہیں وہ بھی ایسا نہیں کرسکتے؟ ایسا کرنا چاہئے اور جوتحسین کا حامل معاملہ ہو اسے اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ بہرحال حسن معاشرت اور تہذیب و اخلاق و شائستگی عادات پر تبصرہ مشکل کام ہے اور نہ ہی کسی معاشرے اور علاقے کے کسی رسم و رواج کو اچھایابرا ٹھہرا نا آسان کام ہے کیونکہ فطری طور پر ہر قبیلہ اور ہرعلاقے کے لوگ اپنے رسم و رواج کو اچھا سمجھتے ہیں اور اسی میں ان کی خوشی ہوتی ہے ۔جن کاموں کی عادت ہو اور معاشرے میں مروج ہوں ان سے موانست فطری امر ہوتا ہے وہی دل کو بھلی معلوم ہوتی ہیں بھلائی اور برائی کی حقیقت بس یہی سمجھی جائے کہ یہ عادت پرموقوف ہوتی ہیں جس چیز کا رواج ہوگیا اور عادت پڑ گئی وہی اچھی ہے لیکن ہمیں اپنی جگہ اپنی رسومات اور معاشرتی عوامل کا بہرحال تنقیدی جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ احساس پیدا ہو کہ کیا اچھی ہے اور کیا بری کن باتوں کو اختیار کیا جائے اور کن چیزوں کو چھوڑ دیا جائے کن معاشرتی رویوں میں اصلاح اور تبدیلی کی ضرورت ہے اور کن کوترک کرنا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت پر اٹھتے سوال