مہنگائی مستقل مسئلہ

ایک حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر ہٹایا گیا دوسری حکومت سولہ ماہ کی مقررہ مدت پوری کرکے تحلیل ہوگئی اب نگران حکومت آئے گی اور نگران حکومت مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد کرکے رخصت ہوگی اور اس کی مدت میںاضافہ بھی ہوا تو بھی مہنگائی ایک ایسا مستقل مسئلہ بن گیا ہے جس پر حکومتوں کے آنے جانے سے فرق پڑتا دکھائی نہیں دیتا تحریک انصاف کی حکومت پر عوامی الزام مہنگائی کرنے کا تھااور اس وقت کے حزب ا ختلاف نے بھی مہنگائی کو بیانیہ بنا لیا تھا بلکہ چارج شیٹ بنا ڈالی مگر جب اقتدار ملا توخود سولہ ماہ میں بدترین مہنگائی کا ریکارڈ توڑ گئے نگران حکومتوں کا تو کام محدوداور مہنگائی جیسے مستقل مسئلے پرقابو پانا ان کے مینڈیٹ کاحصہ ہی نہیں اب عام انتخابات کے نتیجے میں جس کی جماعت اور اتحاد کی حکومت قائم ہو گی واحد اکثریتی سیاسی جماعت کی حکومت بنے یا حسب دستور مخلوط حکومت قائم ہو لیکن کسی سے بھی مہنگائی پر قابوپانے کی توقع اس لئے نہیں کہ مہنگائی کاتعلق سیاسی تبدیلی سے نہیں ہوتا عالمی اور داخلی حالات سے تعلق ہوتا ہے البتہ ملک کی اقتصادی پالیسیاں اور سیاسی استحکام کی فضا سے بہرحال امید وابستہ ہوسکتی ہے کہ اس کے نتیجے میں حالات بہتری کی طرف جائیں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حساس قیمت انڈیکس کے ذریعے پیمائش کردہ قلیل مدتی مہنگائی میں ہفتہ وار بنیادوں پر 0.69 فیصد اضافہ ہوا، اقتصادی ماہرین اور صارفین کے لیے تشویش کا باعث ہے۔حساس قیمت انڈیکس میں شمار کی گئی 51 اشیا میں سے 29اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، 5 مصنوعات کی قیمتوں میں کمی جبکہ 17 اشیا کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔اس اضافے کی بڑی وجہ جولائی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہے، مہنگائی بڑھنے کا رجحان جاری رہنے کی توقع ہے کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت اب بھی زیادہ ہیں۔حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، سبسڈیز کا خاتمہ، مارکیٹ پر مبنی شرح تبادلہ اور زیادہ ٹیکسز شامل ہیں، جس کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں معاشی نمو سست اور مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ تحلیل ہونے کے ایک روز بعد وزارتِ خزانہ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو پانچ بڑے اور مستقل معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں غربت اور سماجی کمزوریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، خاص طور پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور ملکی کرنسی کی مسلسل گراوٹ گھریلو استعمال پر منفی اثرات مرتب کرے گی جس سے خاص طور پر دیہی علاقوں میں غربت میں اضافہ ہوگا۔اس تمام صورتحال سے واضح ہے کہ آمدہ دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافہ اور عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا نیز حکومت نے جاتے جاتے بجلی بلوں میں جو بے تحاشہ ا ضافہ کیا ہے اس کے اثرات کاروباری اور گھریلو دونوں صارفین پر پڑیں گے اور مہنگائی کی شرح مزید بڑھے گی ۔ امر واقع یہ ہے کہ مہنگائی موجودہ نظام کا ایک لازمی جزو ہونے کی حیثیت سے نظام میں یوں سرایت کر گئی ہے کہ مہنگائی کی طوفانی لہر جو پچھلے چند سالوں سے شدت کے ساتھ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، اب برداشت کی تمام حدود پار کر رہی ہے۔مہنگائی کی ایک بڑی وجہ حکومت کی جانب سے ڈیمانڈ سپلائی کے میکینزم کی نگہداشت میں نااہلی اور کرپٹ حکومتی عہدیداروں کا اس عمل کی نگہداشت میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کو سپورٹ کرنا ہے، جس سے مارکیٹ میں اشیائے ضرورت کی کمی کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے جمہوری حکمران عالمی طاقتوں اور مقامی سرمایہ داروں کے فرنٹ مین بن کر سپلائی چین کو ہائی جیک کرنے کی کوششوں میں کوئی مداخلت نہیں کرتے بلکہ الٹا ان کی بلیک میلنگ میں آ کر ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار ذخیرہ اندوزی کر کے اور کارٹیل بنا کر سپلائی کی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ اشیا کی قیمت بڑھا کر دن دوگنا، رات چوگنا منافع کما سکیں۔مہنگائی میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ توانائی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہے جس سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی بنانے کے کارخانوں کی نجکاری سے انرجی انفراسٹرکچر عوامی اور ملکی کنٹرول سے نکل کر چند ملٹی نیشنل سرمایہ داروں کے قابو میں آ جاتا ہے جو توانائی کی فراہمی اور اس کی قیمتوں پر بڑی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔مہنگائی میں اضافے کی ایک اور بڑی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ٹیکس کا نظام ہے جو بلواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثر ٹیکس خصوصی طور پر بلا واسطہ ٹیکس، تمام اشیا اور خدمات پر بالعموم لاگو کیے جاتے ہیں جس وجہ سے اشیا اور خدمات کی قیمتیں اپنی اصل قیمتوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال پٹرولیم مصنوعات کی اصل قیمتوں پر لاگو کیا جانے والا جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی ہیںجب تک ان تمام وجوہات اور عوامل کاتفصیلی جائزہ لے کر ان پر قابو پانے یا کم از کمی لانے پر توجہ نہیں دی جائے گی مہنگائی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنا ممکن نہیں ہوسکے گا۔

مزید پڑھیں:  کیا پسندوناپسند کا''کھیل ''جاری ہے ؟