پاکستان کی جمہوریت کے عوام کو فائدے

دنیا نے جب سے تہذیبی ترقی کی شروعات کی تو اس کا پہلا عمل ایک نظام حکومت کی تشکیل تھی جو دنیا کے مختلف خطوں میں بہت ساری مشترک قدروں کے ساتھ ساتھ اپنے الگ پہچان کے حامل طرز حکمرانی اور امور ریاست پر مشتمل سلسلوں کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے یا سینکڑوں برسوں تک دنیا میں رائج رہے ۔ اس وقت دنیا میں جمہوریت ، بادشاہت ،اشرافیہ ، مطلق العنانیت، آمریت اور مذہبی حکومت وغیرہ رائج ہیں ۔یہ سب طرز حکمرانی آج کی پیداوار نہیں ہیں قدیم یونان کے علماء افلاطون اور ارسطو نے ان کی تمام شکلوںکو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ، ارتھ شاستر کے مصنف کوتلیہ چانکیہ نے بھی ان کی مختلف صورتوں کے بارے میں آج سے ڈھائی ہزار برس بیشتر بتا دیا تھا کنفیوشسس نے بھی ڈھائی ہزار برس پہلے ان نظاموں کی بات کی تھی ۔اس لیے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ جو نظام آج کل دنیا کے ممالک میں رائج ہیں یہ آج کی نسل نے بنائے ہیں بلکہ انسانی ذہن نے انسانوں پر حکمرانی کرنے کا جب سے سلسلہ شروع کیا ہے تب سے اس کے لیے مختلف نظام ترتیب دئیے ہیں ۔ معمولی رد وبدل کے ساتھ یہ نظام آج بھی دنیا میں رائج ہیں اور دنیا کا نظام چل رہا ہے ۔ اس وقت ستر فیصد دنیا میں جمہوریت کی مختلف نظام رائج ہیں ، جمہوریت کی چار بڑی صورتیں ہیں جن کو ہم براہ راست جمہوریت ، نمائندہ جمہوریت ، آئینی جمہوریت اور مانیٹری جمہوریت کا نام دیتے ہیں ۔ بہت سارے ممالک میں آمریت ہے یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں مطلق اقتدار حکمران کے پاس ہوتا ہے یعنی وہ خود مختار ہوتا ہے اس میں بادشاہت اور آمریت کی زیادہ تر حکومتیںشامل ہیں ۔ حکومت کی ایک شکل کو پلوٹو کریسی بھی کہا جاتا ہے جس میں کسی ملک اور معاشرے پر دولت مند یا بہت زیادہ آمدن رکھنے والے لوگ حکمرانی کرتے ہیں یا کنٹرول کرتے ہیں۔پھر ایک طرز حکمرانی ہے جسے oligarchy یعنی امراء شاہی کہا جاتا ہے یعنی چند افراد یا خاندانوں یا مراعات یافتہ طبقے کی حکومت ۔پاکستان دنیا کا ایسا نادر ملک ہے جس میں ان تمام نظاموں کی صورتیں آپ کو مل جائیں گی ۔ یہاں ہمارا دعویٰ ہے کہ جمہوریت ہے مگر عوام کی حکومت عوام کے ذریعہ ہونے کا نام جمہوریت ہے جمہوریت میں مرکزہ عوام ہوتے ہیں بہرحال پاکستان میں ایسا نہیں ہے یہاں عوام صرف غلامی بے روزگار ی بھوک افلاس اور استحصال کے لیے ہیں باقی سارے اختیارات اور مراعات ان کی دسترس سے دور ہیں ۔ یہاں امراء شاہی کوئی ٹیکس نہیں دیتا ملک کے سارے وسائل استعمال کرتا ہے اور جب چاہے اپنی مرضی اور فائدے کا قانون بنا لیتا ہے جس شے میں اس کا فائد ہ ہو وہ جائز ہے جس چیز میں انہیں نقصان ہو اس پر پابندی ہے ۔ یعنی ایک مثال دی جاسکتی ہے کہ دنیا سے ہمیں 34 روپے کی کلو چینی مل سکتی ہے لیکن ان امراء شاہی کی اس سے دکان بند ہوجاتی ہے اس لیے عوام کو ڈیڑھ سو کی کلو خریدنی پڑتی ہے ۔ یہ ڈالر میں اپنے پیسے محفوظ کرتے ہیں اس لیے دنیا کے جائزوں اور اکنامکس کے اصولوں کی رو سے یہاں ڈالر کی قیمت اس وقت 142 پاکستانی روپے ہونی چائیے مگر اس کا نرخ 290روپے ہے ۔یوں آپ پاکستان میں کسی بھی چیز کو دیکھ لیں وہ ان امراء شاہی کے فائدے اور عوام کے نقصان کے لیے ہے لیکن ہمیں ضد ہے کہ یہاں جمہوریت ہے ۔ابتک پاکستان کے بنکوں سے اربوں روپے کے قرضے اس امراء شاہی نے حاصل کیے اور معاف کروائے ،یہاں کی ساری دولت باہر منتقل کرکے وہاں گھر جائیدایں اور اثاثے بنائے اور ساٹھ ہزار ارب روپے سے زیادہ قرضہ انہوں نے لیا اور عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں ۔لاہور،کراچی ، راولپنڈی ،ملتان اور دیگر شہروں کے غریبوں کی زمین چند ہزار وپے مرلہ کے حساب سے خرید کر پچاس لاکھ روپے مرلہ کے حساب سے واپس انہی غربیوں کو دی جاتی ہے اس لیے کہ یہاں جمہوریت ہے ۔جتنے بھی حکمران ہیں سب کے سب ارب پتی ہیں حالانکہ عملی طور پر دیکھا جائے تو کوئی کام نہیں کرتے یہ حکمران چاہئے کسی بھی پارٹی کے ہوں یہاں تک کے مذہبی جماعتیں کیوں نہ ہوں ان کے سربراہاں اور مقتدر لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ خود ان کو اس کا حساب کتاب معلوم نہیں ہے ۔لیکن یہاں غریب پاکستانی ملازمت کرکے یا کاروبار کرکے اپنے مہینے کا خرچہ پورا نہیں کرسکتا آپ سیاست دانوں کو دیکھ لیں ان کے زیر استعمال گاڑیاں دیکھ لیں ہر گاڑی کی قیمت دس کروڑ سے اوپر ہوگی اور ہر ایک کے پاس کئی کئی گاڑیاں ہیں کیا کوئی بندہ کوئی عملی کام کیے بغیر ان کی طرح کی ایک گاڑی خرید سکتا ہے ۔کل تک ایک نوجوان سیاست دان دو لاکھ کے چھوٹے ٹھیکے لینے والے ٹھیکہ داروں کے ساتھ بطور پیٹی ٹھیکہ دار کام کرکے اپنی روزی روٹی کماتا تھا جب وزیر بنا تو اس کے بھائیوں کے پاس بھی دس دس کروڑ کی گاڑیاں آگئیں اور اچانک وہ ملوں کا مالک بھی بن گیا یہ سب نہ تو افلاطون کو نہ ارسطو کو نہ کنفیوشس کو اور نہ ہی کوتلیہ چانکیہ اور میکاولی کو پتہ تھا کہ جمہوریت میں ایسا بھی ہوسکتا ہے یہ ایسی جمہوریت ہے کہ اس کے حکمرانوں کو بیس کنال کا گھر بناکر دیا جاتا ہے ، ایک پوری یونیورسٹی بمع زمین بلڈنگ بناکر دی جاتی ہے لیکن دینے والاموصوف اسی کو بنیاد بناکر ٹیکس ہی نہیں دیتا کہ اس نے خیراتی کام کیا ہے اور پیسہ وہاں لگایا ہے ۔یہاں ایسی جمہوریت ہے جس میں لوگوں سے خیرات جمع کرکے دو کروڑ روپے وزیر اعظم کو اس لیے دیتا ہے کہ وہ اسے وفاق میں ایک یونیورسٹی کا چارٹردے دے ۔یہ ایسی جمہوریت ہے جس میں سینٹرز بننے کے لیے دوسرے ممبران کو ستر سے اسی کروڑ روپے دینے پڑتے ہیں اور یہ سر عام ہوتا ہے جبکہ سینٹر کی چھ برس کی کل تنخواہ ایک کروڑ روپے نہیں بنتی ۔چند دن پہلے تو کمال ہی ہوگیاکئی ایم این ایز نے سیٹھوں سے 35کروڑ روپے فی یونیورسٹی لے کر ایک ہی دن میں 27 پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا بل ایک ہی دن میں کوئی کوڈل فارملیٹی پورے کیے بغیر ایچ ای سی سے این او سی لیے بغیر یونیورسٹیوں کی عمارت بنائے بغیر وہاں اساتذہ ، لائبریری ، لیبارٹیاں اور ٹیچنگ سٹاف تعینات کیے بغیر ہوا میں ہی پاس کروالیے جبکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ قومی اسمبلی کا اختیار ہی نہیں ہے یہ کام صوبائی اسمبلیوں نے کرنا ہے مگر چونکہ ملک میں جمہوریت ہے اس لیے یہ سب جائز ہے اس میں امراء شاہی کا تو فائدہ ہے جن کے لیے یہ ملک اب ایک جنت بن چکا ہے ۔معدنیاتی پہاڑوں کے تمام لیز یہ امراء شاہی ہی لے رہے ہیں،چینی ، سیمنٹ کھاد کے کارخانے ان کے علاوہ کوئی بنا نہیں سکتا ۔جو ادارے حکومت کے پاس ہیں انہیں اونے پونے فروخت کرنا سب کا اولین مقصد ہے ان کو ٹھیک کرنا ان کے فائدے میں نہیں ہے پہلے ان اداروں کوشعوری اور عملی کوششوں سے خراب کردیتے ہیں اور پھر انہیں ملکی اور اب غیر ملکی سیٹھوں کو فروخت کرکے اپنے حصہ کے پیسے لے کر عیش کرتے ہیں ۔ اگر پی آئی اے نقصان میں ہے تو دوسری فضائی کمپنیاں جو یہ امراء شاہی چلا رہے ہیں کیوں اتنے فائدے میں ہیں ۔ مغربی دنیا میں کسی کو اس وقت تک حکومت میں حصہ دار نہیں بنایا جاتاجب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ حکومت میں آکر یاکسی خاص وزارت میں جاکر اپنے کاروبار کو فائدہ تو نہیں پہنچائے گا جسے عرف عام میں conflict of interest یعنی ایسی صورتحال جس میں کوئی شخص اپنی سرکاری حیثیت میں کیے گئے اقدامات یافیصلوں سے ذاتی فائدہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہو یہاں چن چن کر ان مداریوں کو وہ مخصوس وازرتیں دی جاتی ہیں جہاں سے وہ اپنے کاروبار اور مالی فائدے کو ہزاروںگنا بڑھا لیتے ہیں ، ہمارے خزانے کے وزیر وں کو دیکھ لیں ، کالم میں بہت زیادہ تفصیل کے لیے جگہ دستیاب نہیں ہوتی ورنہ میں ایک ایک کرکے آپ کو بتاتا کہ اس ملک کو باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے لوٹا جارہا ہے باریاں بدل بدل کر لوٹا جارہا ہے اور جمہوریت کے لبادے میں لوٹا جارہا ہے ۔ بیوروکریسی کو بھی خوش کرکے عدالت کو بھی خوش کرکے یہ سب کام ہوتے ہیں ۔لیکن شاید اب یہ نظام نہیں چل سکے گا اس لیے کہ ملک کی معاشی اقتصادی اور انتظامی صورتحال اتنی بگڑ چکی ہے کہ جمہوریت کے نام پر اب یہ بھینس مزید دودھ دینے کی قابل نہیں رہی اب اس کی تھنوں سے دودھ کی جگہ خون رسنے لگا ہے اگر کچھ عرصہ مزید اس کا یہ خون اس کے تھنوں سے نچوڑا گیا تو اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر !!!کم ازکم لیکن آخری نہیں