دوسری نگران کابینہ اور سابق وزیراعظم

خیبرپختونخوامیں دوسری نگران کابینہ نے حلف اٹھالیاہے،جوملکی پارلیمانی تاریخ میں ایک انوکھاواقعہ ہے،سابقہ نگران کابینہ پرسیاست میں ملوث ہونے کے الزامات سامنے آنے کے بعد الیکن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نگران حکومت کے بیشتر وزراء اور مشیروںکوکابینہ سے برطرف کرنے کیلئے دباؤ تھا۔اگرچہ اکثریت نے ازخود ہی رضاکارانہ طور پراستعفے دیکرباعزت طور پرحکومت چھوڑدی تھی تاہم گنتی کے چندافرادنے لیت ولعل سے کام لیاتوبہ امرمجبوری انہیںڈی نوٹیفائی کردیاگیاتھا،اس کے بعد بڑی چھان بین کے بعد نئے وزراء کا انتخاب کرنے کی خبریںسامنے آئیں تاہم کچھ باخبرحلقوںکی جانب سے موجودہ کابینہ کے بعض ارکان پربھی”سیاسی”ہونے کے ٹائٹل چسپاں کئے جارہے ہیں،اور سابقہ کابینہ کے چاروزراء کوموجودہ کابینہ میں بھی شامل کیاگیاہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ محولہ چار وزراء کسی بھی طور سیاسی وابستگی سے بالاتررہے ہیں،البتہ نئے وزراء میںسے جن پرسیاسی وابستگی کے الزامات گردش کررہے ہیںتواتناضرورکہاجاسکتاہے کہ ملک میں رہتے ہوئے کون ایساشخص ہوگاجوسیاسی وابستگی کے دعوؤںکی زدمیں نہیںآتاہوگا؟،اتناالبتہ ضرورہے کہ اگرمنصب وزارت پررہتے ہوئے غیرجانبداری کووتیرہ بناکراپنے فرائض منصبی ایمانداری اور دیانتداری سے کوئی شخص اداکرنے پرتیارہوتواس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ اسے وزرات یامشاورت کے منصب پرکام کرتے ہوئے بلاوجہ تنقیدکانشانہ بنایاجائے۔اس ضمن میںایک چشم کشاحقیقت سابقہ کابینہ کے ایک وزیرکے حوالے سے سامنے آنے والی وہ خبریں ہیں جن کے مطابق موصوف جاتے جاتے چارسرکاری گاڑیاں بھی ساتھ لے گئے اور ابھی تک متعلقہ حکام کے مطالبے پریہ گاڑیاں واپس نہیںکیں،حدتویہ ہے کہ موصوف نے گاڑیاں اپنے پاس نہ ہونے کابیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ جن کے پاس ہیں انہیں ڈھونڈکرگاڑیاںمحکمہ ایکسائزکوواپس کرائی جائیں،سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگرگاڑیاں ان کے پاس نہیں ہیں توکن کے پاس ہیں؟،جوظاہرہے انہی کے کہنے پر”متعلقہ ”لوگوں کودی گئی ہوں گی،جواردومحاورے”مال مفت دل بے رحم”کے زمرے میں آتا،اوراب”ان”سے یہ گاڑیاںواپس لینے کی ذمہ داری بھی سابق وزیرموصوف پرہی عائدہوتے ہے،یہ کوئی نئی بات نہیںہے بلکہ ماضی میں بھی وزراء اپنے عزیزوں،رشتہ داروںاورمہربانوںکواسی طرح گاڑیوںکی بندربانٹ کرتے رہے ہیں،اس حلوائی کی دکان ،دادجی کی فاتحہ پرپابندی لگنی چاہیئے اورہروزیرکے پاس دوسے زیادہ گاڑیاں نہیں ہونی چاہئیں،تاکہ غریب قوم پربوجھ نہ پڑے۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟