ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے

سوال یہ نہیں ہے کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم نے اس ملک کی خاطر کیا کیا ہے، بات ہو رہی تھی پاکستان کے لئے دی گئی قربانیوں کی، ہم خالی ہاتھ گھر سے نکلے، خونخوار سکھوں اور ہندوؤں سے بچنے کے لیے مردوں نے ہندوؤں جیسی دھوتی اور خواتین سے ساڑھیاں پہنیں اور حلیہ بھی انہی جیسا بنا لیا تھا، ہمارے پاس ایک بڑا گلاس تھا جس پر مندر بنے ہوئے تھے، کیسے لاشیں بھری ٹرینیں، خون سے رنگین بوگیاں لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچتی رہیں وہ لمحات یاد کر کے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ہماری ٹرین چوبیس گھنٹے میں لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچی یہ جاننا مشکل نہیں کہ چند گھنٹوں کا یہ سفر اتنا طویل کیوں ہوا، ڈرائیور کا ٹرین سست رفتار میں چلانے کا واضح مقصد سکھوں اور ہندوؤں کے جتھوں کو مسلمانوں کے قتل عام کا موقع دینا تھا، سکھ گھوڑوں پر سوار ٹریک کے ساتھ سفر کرتے نعرے لگاتے، فائرنگ کرتے تھے ٹرین کی چھت پر بیٹھے افراد میں سے شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو جبکہ بوگیوں میں مہاجرین نے ایک دوسرے کے اوپر لیٹ کر جان بچائی یہاں بھی نہتے مہاجرین لاشوں کے اوپر لیٹے ہوئے تھے، ہر جگہ خون بکھرا ہوا تھا، ایسی بدحواسی، بے بسی، لاچاری، خوف اور دہشت میں نے کبھی نہیں دیکھی، وقتا فوقتاً سکھوں کے جتھے حملہ آور ہوتے، خواتین کو اٹھا کر بھاگ جاتے، بچوں کو اچھالتے اور برچھی پر لٹکا دیتے، جیسے تیسے لاہور پہنچے، خوش قسمت تھے کہ والد علی محمد مرحوم محکمہ انہار میں افسر تھے لاہور ریلوے سٹیشن پر چیف انجینئر سے ملاقات ہوئی، ایک رات ان کے گھر قیام کیا پھر ہمیں لاہور سے فیصل آباد روانہ کر دیا گیا، یہاں پہنچ کر ایک سرکاری گھر الاٹ ہوا، ہمارے سامنے اہلکار نے ایک گھر کا تالا توڑا، مکان میں موجود گھر کا سامان نکال کر نیلام کیا اور وہ مکان ہمارے حوالے کر دیا، فیصل آباد کی جناح کالونی میں ایک مہاجر کیمپ لگا ہوا تھا میرے والد علی محمد مرحوم کئی روز تک اس مہاجر کیمپ میں جاتے اپنے جان پہچان کے لوگوں کو گھر لے آتے پھر جیسے تیسے کہیں ان کا بندوبست کرتے اور روانہ کر دیتے، فیصل آباد سے ہم نے کئی سکھوں اور ہندوؤں کو پیدل بھارت جاتے دیکھا لیکن کسی نے ان پر حملہ کیا نہ ہی کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی، انیس سو اڑتالیس میں تیسری جماعت میں دوبارہ داخل ہوا، اسی سال میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال ہوا سکول سے واپس آتا تو چلتے چلتے سوچتا رہتا کہ ہمارا کیا بنے گا جس نے ملک بنایا وہی انتقال کر گئے، قیام پاکستان کے بعد کافی دیر تک بالخصوص خواتین یہی سمجھتی رہتی تھیں کہ انگریز نکل جائے گا اور ہم واپس اپنے وطن چلے جائیں گے، پڑھتے پڑھتے پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیمسٹری میں ٹاپ کیا، پھر میں پی ایچ ڈی کرنے انگلینڈ چلا گیا وہاں سے واپسی پر حج کرتے ہوئے پاکستان واپس آیا، پھر روزگار کی تلاش میں کراچی جا پہنچا، یہاں پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن میں اہم عہدے پر پچیس برس خدمات انجام دیں، پہلے ہجرت کرتے ہوئے سکھوں اور ہندوؤں کے مظالم دیکھے اس ادارے میں قومی اثاثوں کا تحفظ کرتے ہوئے بے پناہ مصائب کا سامنا کرنا پڑا، بھارت سے صرف ایک مرتبہ ہجرت کرتے ہوئے تکلیف برداشت کی تو نوکری کے دوران کئی مرتبہ دھمکیوں کی وجہ سے ممکنہ حملوں سے بچنے کے لیے اہل خانہ کے ساتھ راتیں کراچی کی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے گذاری ہیں، ملک کو نقصان اپنوں نے پہنچایا ہے، اسے اپنوں نے لوٹا ہے، اب کچھ واقعات قائد اعظم کی بے مثال اور قابل تقلید زندگی سے، کچھ تو ایسا تھا قائداعظم میں کہ اللہ پاک نے برصغیر کے جید علمائ، مفتیان، دانشوروں،مشائخ اور دیگر نامی گرامی لوگوں میں سے اس کام کے لئے قائداعظم کا انتخاب کیا، قائد اعظم سے جب پوچھا گیا کہ آپ اتنی بیماری کے باوجود اتنی محنت کیوں کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا تھا کہ جب میں مر جاؤں اور اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوں تو میرا رب مجھ سے کہے شاباش جناح، قائداعظم نے وفات سے کچھ عرصے قبل اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا اوریہ وہ آخری سرکاری تقریب تھی جس میں قائداعظم اپنی علالت کے باوجود شریک ہوئے ،وہ ٹھیک وقت پر تقریب میں تشریف لائے انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی نشستیں ابھی تک خالی ہیں انہوں نے تقریب کے منتظمین کوتقریب شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں، حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد کے آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا، ان میں کئی دوسرے وزراء سرکاری افسر ان کے ساتھ اس وقت کے وزیرا عظم خان لیاقت علی خان بھی شامل تھے، وہ بے حد شرمندہ تھے کہ ان کی ذراسی غلطی قائد اعظم نے برداشت نہیں کی اور ایسی سزا دی جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، آج کے وزیراعظم کو اس طرح کھڑا کرنے کا سوچ سکتے ہیں آپ، قائد اعظم کے نزدیک وقت کی اہمیت سب سے زیادہ تھی، ابوالحسن اصفہانی اپنے ایک مضمون بے مثال لیڈر میں لکھتے ہیں کہ قائد کی عادت تھی کہ کمرے سے باہر نکلتے وقت تمام بتیاں بند کر دیا کرتے تھے،میں آخری بار ان سے گورنر ہاؤس میں ملا تھا، ہم کمرے سے نکلے تو مجھے سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے اور کمرے سے نکلتے وقت حسب عادت تمام بتیاں بند کرتے آ رہے تھے، تو میں نے ان سے کہا کہ سر آپ گورنر ہیں اور یہ سرکاری رہائش گاہ ہے اس میں بتیاں جلتی رہنا چاہئیے،تو قائد نے جواب دیا کہ سرکاری رہائش گاہ ہے اسی لئے تو میں ایسا کر رہا ہوں یہ نہ تمہارا پیسہ ہے اور نہ میرا یہ سرکاری خزانہ کا پیسہ ہے اور میں اس پیسہ کا امین ہوں،عدالتی دلال روزانہ قائد کی خدمت میں آکر کہتے کہ اگر آپ ہمیں ساری فیس کا آدھا دیں تو ہم زیادہ سے زیادہ مقدمات آپ کے پاس لائیں گے،تو اس پر جناح نے جواب دیا کہ میں ایسا نہیں کروں گا،ایسا کرنے سے مجھے بھوکا رہنا بہتر ہے، جامعہ الہ آباد میں کانگریس اور مسلم لیگ کے طالب علموں میں یہ تنازعہ اٹھا کہ یونیورسٹی میں پرچم کس پارٹی کا لہرایا جائے گا، ہندؤں کا یہ ماننا تھا کہ چونکہ ملک میں ان کی اکثریت ہے لہذا یونیورسٹی میں پرچم بھی انہی کا لہرانا چاہیئے، جب کہ مسلم لیگ کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ یونیورسٹی میں مسلمان طالب علموں کی اکثریت ہے لہذا پرچم ان کا لہرانا چاہیئے، یونین کے الیکشن میں مسلم لیگ کی یونین کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ کے طالب علموں نے قائد اعظم سے رابطہ کیا کہ وہ مسلم لیگ کی یونیورسٹی میں پرچم کشائی کی تقریب میں شرکت کریں، اس موقع پر قائد اعظم نے اپنی قوم کے معماروں کو ایک تاریخی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمھیں اکثریت مل گئی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش کرنا نا زیبا حرکت ہے، کوئی ایسی با ت نہ کرو جس سے کسی کی دل آزاری ہو، ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے ، یہ منا سب بات نہیں کہ ہم خود وہی کام کریں جس پر دوسروں کوبرا کرتے ہیں، جائزہ لیں کہ جب ہمیں طاقت ملتی ہے تو ہمارا رویہ کیسا ہوتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !