ایک فلسفی کی زندگی ، باتیں اور فلسفہ

یوم آزادی پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے با کمال لوگوں کے لیے قومی ایوارڈز کا اعلان ہوا تو مجھے معروف فلسفی ژاں پال سارتر یاد آئے کہ اُنہوں نے سال 1964 میں یہ کہہ کر نوبل پرائز لینے سے انکار کیا کہ ایک ادیب کو مکمل آزادی سے رہنے دیا جائے اور اُسے کسی بھی ادارے میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے ۔ اس سے قبل سارتر کا نام 1957 میں بھی نوبل انعام کے لیے تجویز ہوا تھا لیکن وہ اپنا ایوارڈ لینے نہ آسکا کہ ان دنوں الجیریا کے حق میں سامراجی طاقتوں کے خلاف احتجاج کر رہا تھا ۔ یہ انعام پھر البرٹ کامیو کو دے دیا گیا ۔ سارتر کی فکر اور کام سے ہمیں تعارف اُس وقت ہوا جب ہم چند دوست پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں قاضی جاوید کو ملنے جاتے جہاں وہ دیگر اہل فکر اور اساتذہ کے پاس بیٹھے آپس میں فلسفہ اور متعلقہ موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے ۔ قاضی مرحوم نے اپنی کتا ب ‘بیسویں صدی کا فلسفہ ‘ میں سارتر کا ذکر کیا ہے اور شعبہ کی ایک نشست میں اس انسان دوست فلاسفر کے حالات زندگی ، خیالات اور کتابوں کے بارے تفصیلی گفتگو کی ۔ یہ لوگ کہا کرتے کہ فلسفہ کی جڑیں تہذیب میں پیوست ہوتی ہیں لہذا ہمارے قومی فلسفے کو ہماری تہذیب و تاریخ سے جنم لینا چاہیے ۔ یوں وہ مختلف فلسفیوں کی فکر کو بھی ان کے سماجی اور تہذیبی پس منظر میں اُجاگر کیا کرتے ۔ پیرس میں پیدا ہونے والا سارتر دو سال کی عمر میں یتیم ہو گیا اور ماں کی دوسری شادی نے اُسے اس قدر ذہنی طور پہ متنفر کر دیا کہ عمر بھر شادی کے بندھن سے آزاد رہا ۔ نانا نے اُسے پالا پوسا ، بچپن سے لکھنے کا شوق تھا اور کہا کرتا کہ مَیں لکھنے کی وجہ سے ہی زندہ ہوں ۔ فلسفہ پر کئی کتابیں لکھنے کے علاوہ اُس نے ناول ، بائیو گرافی اور ڈرامے لکھے ۔ وہ وجودیت کا بانی فلسفی سمجھا جاتا ، اُس کے نزدیک زندگی کا مقصد مکمل آزادی ہے اور اپنی ہر تحریر میں اسی بات کو نمایاں کرتا ہے کہ انسان کو اپنے کرب سے آزادی حاصل کرنا چاہیے ۔ دُنیا میں کہیں بھی انسانی آزادی پر حملہ ہوا تو سارتر نے ہمیشہ اس کے خلاف احتجاج کیا اور لکھا ۔
شعبہ فلسفہ کے اسی حلقے کی نشست میں ایک دو اساتذہ نے سارتر کی اس بات پر تنقید کی کہ وہ زندگی کو بے مقصد قرار دیتا ہے اور آزادی کے بغیر اس کی نظر میں زندگی کے کوئی معنی نہیں ۔ اگرچہ انسان اپنے افعال اور ذاتی کردار کا خود ذمہ دار ہے مگر اُسے اپنے سماجی اقدار اور اخلاقی دائرہ سے باہر نہیں نکلنا چاہیے ۔ اب اگر سارتر کی اس فکر کا تجزیہ یورپ میں عالمی جنگوں کے حوالے سے کیا جائے تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ان جنگوں کی بربریت نے انسانی معاشرے کو بّری طرح متاثر کیا ، انسان درندوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور کسی کو بھی اخلاقی قدروں کے علاوہ مذہبی تقاضوں کا خیال نہ رہتا ۔ جب لوگ مایوس ہوگئے کہ اُن کے مسائل کا حل اخلاقیات میں نہیں اور ان کی پریشانیاں کسی طور پر ختم نہیں ہو رہیں تو یہاں وجودیت کی سوچ نے جنم لیا ۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وجودیت روایتی فکر کے خلاف ایک بغاوت ہے ۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کے حلقہ میں ایک دوست طالب علم نے سوال اُٹھایا کہ کیا سارتر انسان کو پرانے رسم و رواج سے آزاد کرنا چاہتا ہے ؟ اہل دانش کا جواب یہ تھا کہ سارتر اپنے لیے زندگی کے کسی عمل کو اختیار کرنا روایتی سوچ سے ہٹ کر سمجھتا ہے ، مثلاً اگر کوئی شخص پیشہ ور باورچی نہیں ہے لیکن وہ کھانے پکاتا ہے تو یہی مکمل آزادی ہے کہ وہ اپنے طور پہ باورچی بن گیا ہے ۔ ہاں اگر کوئی ایسا نہیں کر سکتا تو پھر اپنے لیے معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا جواز ڈھونڈ لیتا ہے ۔ سارترنے سارا فلسفہ ہوٹل اور کیفے میں بیٹھ کر لکھا ، لوگ حیران ہوتے تو یہ کہتا کہ مجھے اس ماحول میں بیٹھ کر لکھنا اچھا لگتا ہے کہ یہاں آنے والے نہ میری پرواہ کرتے ہیں اور نہ مجھے ان مختلف لوگوں کی پرواہ ہوتی ہے ۔ چند مخالفین اس کے فلسفہ کو کافی ہاؤس کا فلسفہ کہہ کر مذاق اُڑایا کرتے ۔ سیمون ڈی بوار بھی فرانسیسی فلسفی اور ناول نگار تھی جو نسوانی تحریک کی اہم کارکن اور سارتر کے فلسفہ کی حامی تھی ۔ سارتر کے ساتھ اُس کے تعلقات بھی بڑی عجیب نوعیت کے تھے ، وہ مردوں کو کمتر سمجھتی مگر سارتر اُس کا روحانی ساتھی تھا جس کے ساتھ بیٹھ کر بحث و مباحثہ کرتی ۔ اُس کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے سوا کسی اور کے تابع نہیں بنانا چاہتی ۔ لیکن اُس نے ساری زندگی سارتر کے ساتھ گزار دی ۔ ” سیکنڈ سیکس ” جیسی معروف اور متنازعہ کتاب لکھنے والی سے جب دوست پوچھتے کہ تم سارتر سے متاثرہو یا سب کچھ چھوڑ کر اس کے سامنے سرنگوں ہو گئی ہو ۔ وہ ہمیشہ یہی کہتی کہ مَیں سارتر کی دوست ہوں، مجھے جب کوئی بہتر آدمی مل جائے گا تو اسے چھوڑ دوں گی ۔ اُن کا یہ ساتھ سارتر کی موت پر ٹوٹا ، دونوں نے اپنی اپنی زندگی گزاری اور اپنے کردار کے حوالے سے آزاد تھے ۔ سیمون نے اپنے ناولوں اور الگ سے بھی سارتر کے ساتھ اپنے تعلقات کا ذکر کیا ہے ۔ وہ انسان دوست تھا مگر اس نے انسانی دوستی کی بنیاد دہریت پر رکھی ، اس نظریہ کی خوب مخالفت کی گئی بلکہ پاپائے روم نے تو سارتر کی تمام کتابوں کو ممنوعہ قرار دیا تھا ۔ لوگ سچائی اور اچھائی کے مقابلے میں بے ہودہ بات کو وجودیت کہتے ، فرانس میں اگر کوئی یونہی بے خیالی میں غلط اور نا مناسب باتیں کرنے لگتا تو فوری معافی مانگتا اور کہتا کہ مَیں وجودی بن گیا تھا ۔
دراصل سارتر نے دو جنگوں کے نتیجہ میں سماجی ، مذہبی اور اخلاقی تباہی کی صورتحال کو اپنی تحریرمیں نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ لوگوں کو ایک نیا راستہ دکھانے کی کوشش کی ہے ، جسے وجودیت کا نام دیا ۔ اب اس کے نظریات سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن سارتر نے اپنے طور پہ کوشش ضرور کی ہے جس نے دنیا بھر میں معاشرتی زندگی کو کسی حد تک متاثر کیا ۔ اس بات کو بھی حلقہ میں اساتذہ کرام بڑی دلچسپی سے بیان کرتے کہ عرصہ بعد سارتر بھی خود کو وجودی کہلانے سے کترانے لگتا اور اپنی کچھ باتوں سے منحرف بھی ہو جاتا ۔ سارتر اور برٹر یند رسل دونوں روسی نظرئیے کے حامی رہے لیکن جب روس کی جارحیت سامنے آئی تو اشتراکیت کے خلاف ہو گئے ۔ سارتر سے کسی نے پوچھا تھا کہ مرنے کے بعد تمہیں کس حوالہ سے یاد کیا جائے تو جواب دیا کہ لوگوں نے اگر میرے ناول ‘نوسیا’ اور ڈرامہ’ نو ایگزیٹ ‘کو یاد رکھا تو زندہ رہوں گا ۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے