کم سے کم اجرت کا قانون اور نفاذ کا سوال

اسمبلی میں بل پاس کرنے اور اس کی باقاعدہ منظوری وقانون سازی کی حد تک کم سے کم اجرت بارے سنجیدہ اقدامات کئے گئے ہیں اور اس ضمن میں اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کی جا چکی ہے لیکن دیگر معاملات کی طرح اس قانون کے نفاذ اور اس کی خلاف ورزی کے معاملات توجہ طلب ہیں سرکاری اداروں میں تو اس کا اطلاق ہوچکا مگر ہمارے نمائندے کی صورتحال بارے رپورٹ میں وضح طور پراس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ خیبر پختونخوا میں کم سے کم اجرت 32ہزار مقرر کرنے کے باوجود دو ماہ بعد بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے مزدوروں کی ماہانہ اجرت بڑھانے کی سمری تاحال منظور نہیں کی گئی فیصلہ کیا گیا تھا کہ مزدوروں کم سے کم ماہانہ اجرت بتیس ہزار روپے ہوگی اس کی منظوری ویج بورڈ اور دیگر متعلقہ محکموں سے بھی ہوئی تاہم سی ایم ہاوس میں اب بھی سمری پڑی ہے اور منظوری کی منتظر ہے ستم بالائے ستم یہ کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی سمری تیز ی کے ساتھ منظورکی گئی تھی لیکن مزدوروں کو ریلیف دینے کیلئے سمری تاحال منظور نہیں ہوئی ۔صوبوں میں صنعتوں کی جو صورتحال ہے ایندھن کی قیمتوں اور خام مال کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کے باعث صنعتیں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں لیکن بہرحال اس صورتحال کو جواز بنا کر مزدوروں کی حق تلفی کی گنجائش نہیں اس کے نفاذ کا مرحلہ بعد میں آئے گا اس وقت توحکومت سے اس کی منظوری اور نفاذ کا عمل ہی غیر یقینی ہے منظوری کا مرحلہ طے ہونے کے باوجود ومابعد بھی اس حوالے سے کسی خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ اس کی خلاف ورزی ہی کی توقع ہے لیکن حکومت کم از کم اس کی منظوری کی ذمہ داری تو نبھائے اور اس کے بعد اس کے نفاذ کو موثربنانے کی سعی ہونی چاہئے اور اس کی ممکنہ خلاف ورزی کے تدارک کے لئے بھی سرکاری اداروں کو متحرک کردار کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمارے تئیں صرف قانون سازی ہی کافی نہیں بلکہ اس کا عملی نفاذ اور عملدرآمدزیادہ اہم ہے لیکن حکومت کی طرف سے غیر سنجیدگی کااگر یہ عالم ہوکہ قانون سازی کا عمل ہی نامکمل چھوڑ دیا جائے تو اس پر عملدرآمدکی صورت حال کیا ہو سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں حکومت کو کسی دبائو میں آئے بغیر اسے باقاعدہ قانون کی صورت دینی چاہئے اور اس پر عملد ر آمد میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیاجانا چاہئے اور نہ ہی حکومت کو کسی دبائو میں آنے کی ضرورت ہے نیز کسی بھی مصلحت کا شکار بھی نہیں ہونا چاہئے تاکہ اس پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کے تقاضے پورے ہوں۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت