انتخابات کے انعقاد بارے بڑھتے شکوک و شبہات

حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کی حمایت اور اسے حال ہی میں تحلیل ہونے والی مخلوط حکومت کا متفقہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا اصرار ہے کہ عام انتخابات نئے سرے سے حلقہ بندی کے بعد ہی ہوں گے ۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات کے بارے میں کوئی غیر یقینی نہیں ہے، یہ صرف آئینی تقاضے ہیں جو انتخابات کو چند مہینوں کے لیے آگے بڑھا سکتے ہیں۔ حلقہ بندی کا عمل مکمل ہوتے ہی الیکشن کمیشن اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔ صادق سنجرانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے صرف چند روز قبل مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں حکومت نے 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کو متفقہ طور پر اور اس فیصلے کے اثرات کو اچھی طرح جانتے ہوئے منظور کیا ۔ یہ انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال ہی ہے کہ اس حوالے سے بیانات دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور اسی غیر یقینی ہی کے باعث سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی انتخابی تیاریوں کی صورتحال نظر نہیں آتی اگر وقت پر انتخابات ہونا یقینی ہوتا تو ملک میں اس وقت تک سیاسی صورتحال بن چکی ہوتی اس کی اپنی وجوہات اور عوامل ضرور ہوں گی جس کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی تیاری نظر نہیں آتی اور نہ ہی حکومتی اور الیکشن کمیشن کی سطح پر ایسے ٹھوس اقدامات نظر آتے ہیں جس سے انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقاد کا یقین ہو۔مردم شماری کے حتمی اعلان اور نوٹیفکیشن کے معاملات 31 مئی تک مکمل کرلئے جانے چاہئے تھے تاکہ15ستمبر تک نئی حلقہ بندیوں اور اعتراضات کے امور مکمل ہونے پر نومبر کے آخری ہفتے میں انتخابات ہونے کی راہ ہموار ہوتی۔ رخصت ہونے والی حکومت نے مردم شماری کی منظوری اور نوٹیفکیشن کے اجرا میں غیرضروری تاخیر کی سوال یہ ہے کہ کیا اس تاخیر کو جواز بناکر حلقہ بندیوں کے آئینی عمل کو روکا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے کسی بھی ادارے اور عدالت کو بہت سوچ سمجھ کر رائے اور فیصلہ دینا چاہیے اور یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس وقت پارلیمان بھی نامکمل ہے۔ قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی سینیٹ گوکہ موجود ہے لیکن محض سینیٹ میں وہ فیصلے نہیں کئے جاسکتے ہم مکرر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ نگران حکومت کے پاس پالیسی سازی کے اختیارات نہیں اسی طرح کسی ادارے کو مشترکہ مفادات کونسل اور پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوان کے اختیارات استعمال کرکے مسائل پیدا کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ سیاستدانوں کی غلطیوں یا منصوبے کے تحت کئے گئے اقدام ہر دو کا بوجھ آئین پر نہیں پڑنا چاہیے۔معاملات آئینی طریقہ کار کے مطابق ہی آگے بڑھانا ہوں گے تاکہ کسی قسم کی ابتری پیدا نہ ہونے پائے۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !