یہ تونے کیا کہا واعظ ‘ یہ جانا کوئے جاناں میں؟

اب جوبھی کرے گا”شیر” ہی کرے گا’ والا لطیفہ اتنا پرانا اور فرسودہ ہوچکا ہے کہ ہر شخص اس کی تفصیل مکمل طور پر جانتا ہے ‘ اس لئے ہم بھی اس حوالے سے صرف اتنا اضافہ ہیں کہ ”شیر” نے کیا کرنا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کیونکہ ”شیر” کی”خونخواری” کوئی پوشیدہ امرتو ہے نہیں ‘ اور چونکہ تحریک انصاف نے صدر عارف علوی کے”معافی مانگتے ہوئے” نیا کٹا کھولنے کے حوالے سے دو روز پہلے ان پر ٹرولنگ کے بعد اب ان کے تازہ بیانئے پر ”بھنگڑے” ڈالتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس لئے لطیفے والے”شیر” کی طرح تحریک کے مخالفین کے ساتھ مبینہ ”شیر” والے سلوک اور اس ٹولے کے ساتھ”ویلکم ‘ گڈ بائی” والا رویہ اختیار کرنے والے”شیر” نے تازہ معاملے میں جوکچھ کرنا ہے وہ اظہر من الشمس کے زمرے ہی میں آتا ہے حالانکہ سبکدوش سیکرٹری نے بھی ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے تاہم اس پرتفصیل کے ساتھ بات کرنے سے پہلے دو ضمنی خبروں کو جو باہم جڑی ہوئی ہیں ‘ زیر بحث لانا بھی ضروری ہے ‘ پہلی خبر تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے نگران حکومتوں کے لئے مزید ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نگران حکومتیں انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کریں ‘ یہ ہدایات بہت طویل ہیں تاہم اتنی تفصیل سے ان پر روشنی ڈالنے کی بجائے ان کا نچوڑ نکالتے ہوئے کلیدی نکتہ اوپر بیان کر دیاگیا ہے اور دوسری خبر صوبہ خیبر پختونخوا کے حوالے سے ہے جس کی سرخی یہ ہے کہ صوبائی کابینہ میں شامل نگران وزراء کو چار روز بعد بھی قلم دان نہ مل سکے ‘ کیونکہ خبر کے مطابق بعض محکموں کی الاٹمنٹ پر ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے ‘ محکمہ صحت اور اوقاف کے امیدوار زیادہ ہیں ‘ اس لئے وہ جو الیکشن کمیشن نے تازہ ہدایات جاری کی ہیں ان کی ضرورت رہ جاتی ہے ؟ کیونکہ جس صوبائی نگران کابینہ کے پاس محکموں کی تقسیم پر ”جھگڑنے” کے سوا کوئی کام نہ رہ گیا ہو ‘ وہ بھلا انتخابات پر اثرانداز کرنے کے لئے وقت کہاں سے نکالے گی انہیں تو ”بھاری بھر کم اختیارات” کے حصول کے لئے ہی ساری توانائیاں مجتمع کرنا پڑ رہی ہیں اور ”غوڑ” قسم کے محکموں اور ان سے منسلک ”مراعات” پر ہی نظریں گاڑنے سے فرصت ملے تو پھرالیکشن کے بارے میں سوچیں ‘ ویسے بھی سابقہ صوبائی نگران کابینہ کی ”برطرفی” کے بعد جس پر اسی قسم کے الزامات لگائے گئے تھے ‘ اب کوئی پاگل ہی ہو گا جو مفت میں الیکشن پر اثر انداز ہونے کی غلطی کرے گا ‘ اس لئے ان کے لئے بہتر یہی ہو سکتا ہے کہ الیکشن ‘ سلیکشن کو تین حروف سے زبر دے کر”مفادات” کی ٹوکریاں بھرنے پر توجہ دیں کہ بقول فلمی شاعر
لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین”رات” ہو نہ ہو
شاید کہ اس جنم میں”ملاقات” ہو نہ ہو
ویسے الیکشن کمیشن سے ایک سادہ سا سوال یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ انتخابات کب ہوں گے؟ کہ نگرانوں کے لئے ابھی سے اتنی ڈھیر ساری ہدایات جاری کردی گئی ہیں ‘ یعنی جب الیکشن کمیشن خود ہی بتا رہا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں تک انتخابات نہیں کئے جا سکتے تو پھر اتنا”اتاولا” ہونے کی کیا ضرورت ہے ‘ ذرا صبر سے کام لے اور جب الیکشن کی تاریخ کا حتمی فیصلہ ہوجائے تو پھر ہدایت نامہ جاری فرمائے ‘ تب تک نگران بھی آرام سے اپنی”وارداتیں” ڈال سکیں گے یعنی ا ختیارات کی بندر بانٹ پر متفق ہو سکیں گے اور پھر الیکشن میں ”غیر جانبدارای” کے نفاذ پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہو سکے گا ۔کہ بقول شاعر
یہ تونے کیا کہا واعظ؟ نہ جانا کوئے جاناں میں؟
ہمیں تو رہروئوں کی ٹھوکریں کھانا ‘ مگر جانا
اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور جولوگ صدر علوی کے تازہ ٹویٹ پر بھنگڑے ڈالتے ہوئے بغلیں بھی بجا رہے ہیں ‘ ان کی اس خوشی کو صدر کے سیکرٹری نے جنہیں فی ا لحال سبکدوش کر دیا گیا ہے ‘ اپنے بیان سے کافور کر دیا ہے’ اسی بنیادپرانہوں نے اپنی سبکدوشی پر بھی سوال اٹھا دیئے ہیں اور اپنی واپسی کا مطالبہ کیا ہے بلکہ الٹا صدر علوی کو اس سارے ”قضیئے”کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے ‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے کو عدالت لے جائے جانے کے بعد حتمی فیصلہ کیا ہوتا ہے ۔(اگرچہ فیصلہ غیر متوقع بھی نہیں ہے) تاہم اس حوالے سے سادہ سی بات یہی ہے کہ صدر علوی کے بیانئے میں بہت جھول ہیں ‘ قصر صدارت ‘ قصر وزیر اعظم ‘ سیکرٹریٹ میں قائم مختلف وزارتوں میں آنے جانے والی فائلوں اور ان سے جڑے معاملات اتنی آسانی سے نہیں نمٹائے جا سکتے کہ ان کی حساسیت بہت گھمبیر ہوتی ہے’ جبکہ ان کے مقابلے میں عام سرکاری دفاتر میں بھی فائلیں آگے پیچھے ہوتی ہیں تو ان پر ہر ہر قدم پر متعلقہ اہلکار باقاعدہ رائے تحریری صورت میں درج کرکے ہی اگلی منزل کی طرف روانہ کرتے ہیں ‘ کسی بھی معاملے پر زبانی احکامات سے کام نہیں چلایا جا سکتا چہ جائیکہ ایک ا نتہائی حساس نوعیت کے معاملے ‘ یعنی پارلیمنٹ میں ہوتی قانون سازی کے حوالے سے ‘ جس پرآئین کے تقاضوں کے مطابق دس روز کے اندر اندر کسی بھی نوعیت کا فیصلہ مطلوب ہو ‘ یعنی یا تو اس نوعیت کے فائل پردستخط کرکے اس کی حتمی منظوری مطلوب ہو یا پھر اس سے اختلاف کرتے ہوئے اسے کلی یا جزوی اعتراضات کے ساتھ مقررہ وقت میں نظرثانی کے لئے واپس بھیجنا ہو ‘ یعنی تیسری کوئی صورت نہیں ہوسکتی ‘اور بہ فرض محال صدرمملکت کی بات کو درست تسلیم کرلیا جائے یعنی انہوں نے زبانی احکامات دے کرفائل واپس کردی تھی تو بغیر کسی جواز کے فائل کی واپسی کیسے تسلیم کی جاسکتی ہے ؟ اور اگر کل اس حوالے سے اسمبلی سیکرٹریٹ سے اعتراض سامنے آجائے کہ متعلقہ مجاز حکام نے کس کی اجازت سے بغیر ”مندرجات”فائل واپس بھیجی ہے تو اس سوال کا جواب کون دے گا؟ کیا اس وقت صدر مملکت یہ ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہوں گے ‘ بلکہ وہ تو صاف مکر جائیں گے کہ میں نے اپنے متعلقہ عملے کو ‘ کوئی ہدایات دی ہی نہیں ‘ پھر سیکرٹری اور دیگر تین چار اہم افراد کس طرح جان بچا سکیں گے؟یوں ذمہ داری کاتعین کیسے کیا جائے گا
میں نے روکا بھی نہیں ‘ اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
قانونی موشگافیوں میں پڑنے سے بہتر متعلقہ سیکرٹری کا”جواب الجواب” ہی ہے اس معاملے کی غیر جانبدار تحقیقات سے ہی اصل معاملے کی تہہ تک پہنچا جاسکتا ہے ‘ اپنے سیکرٹری کی خدمات واپس کرتے ہوئے اگر صدر علوی ان کی ”برطرفی”کا مطالبہ کرتے تو بات میں وزن ہوتا مگر صرف ان کی خدمات واپس کرنے سے صورتحال”گونگلوئوں پر سے گرد جھاڑنے” کی ناکام کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ اب کتنی بھی تاویلیں تراشی جائیں تیر کمان سے نکل کر ہدف کے عین وسط میں پیوست ہوچکا ہے اور جن کے گرد گھیرا تنگ ہونا تھا وہ ہوچکا ‘ بغیر سوچے سمجھے ریشم کے دھاگوں میں ہاتھ پھنسانے کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کونسے دھاگے کو کس دھاگے سے اور کیسے جدا کیا جائے۔
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کونسے دھاگے کو جدا کس سے کریں؟

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں