گلیشیر سپرنگ واٹر

لیکن ہمارے پاس خدا کی ایک اور نعمت ہے پانی اور وہ بھی جسے دنیا گلیشیر سپرنگ واٹر کہتی ہے یعنی وہ پانی جو برف کے ہزاروں برس سے محفوظ بڑے بڑے خزانوں سے رس کر نیچے آتا ہے اور چشموں سے نکل کر دریاؤں میں شامل ہوجاتا ہے اس پانی کی قیمت دنیا میں بہت زیادہ ہے آپ گوگل کرکے دیکھ لیں اس پانی کی ایک بوتل دس ہزار پاکستانی روپوں سے زیادہ کی مارکیٹ میں ملتی ہے ایک وہ پانی ہے جو ہمارے ہاں دکانوں سے خرید کر پیا جاتا ہے اسے ہم منرل واٹر کہتے ہیں جو زیر زمین پانی کو نکال کر اس میں کچھ منرلز شامل کرکے پیک کرکے مارکیٹ میں بیچا جاتا ہے یہ عام پانی ہوتا ہے اس لیے اس کی قیمت بہت کم ہوتی ہے اور یہ پانی دنیا میں کہیں بھی ایک فلٹریشن پلانٹ لگا کر حاصل کرسکتے ہیں مگر میں جس پانی کا ذکر کررہا ہوں وہ دنیا میں صرف چند ممالک میں دستیاب ہے ان خوش قسمت ممالک میں ہمارا ملک پاکستان بھی ہے پاکستان میں اس وقت چترال اور شمالی علاقہ جات میں سینکڑوں بڑے بڑے گلیشیر ہیں جن کا قیمتی پانی ضائع ہورہا ہے اگر مارکیٹ میں عام منرل والا پانی اور گلیشیر کے چشموں والا پانی رکھا جائے تو کوئی بھی عام منرل والا پانی نہیں خریدے گا اس لیے کہ گلیشیر کے چشموں والا پانی براہ راست چشموں سے بوتلوں میں بھرا جاتا ہے اس میں تمام قدرتی منرلز شامل ہوتے ہیں اس وقت دنیا میں صرف دو کمپنیاں EVIAN اور ARROWHEAD جو گلیشیر سپرنگ واٹر دنیا میں بیچتی ہیں ان کی مارکیٹ ویلیو سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے ان کی جیسی سینکڑوں دیگر کمپنیاں ہیں جو اس پانی کا کاروبار کرتی ہیں ان کمپنیوں کو اس پانی کے حاصل کرنے میں بہت مشکلات ہوتی ہیں ان کے اس پربہت زیادہ اخراجات اٹھتے ہیں پھر یورپ اور کینیڈا سے اس کو دیگر ممالک تک پہنچانے میں بہت زیادہ خرچہ اٹھتا ہے مگر وہ اس کے باوجود اس منافع بخش کاروبار میں ترقی کررہے ہیں اس لیے کہ اس مارکیٹ کی طلب کا صرف دس فیصد بھی یہ ساری کمپنیاں پورا نہیں کرپارہی ہیں لوگ مجبوراً عام زیر زمین پانی یا سمندر کے فلٹر شدہ پانی کے استعمال پر مجبور ہیں یہ وہ کاروبار ہے جس پر بہت کم سرمایہ کاری کرکے بہت زیادہ منافع حاصل کیا جاسکتا ہے اس لیے کہ پاکستان کے تقریباً پچاس ہزار سکوائر کلومیٹر کے علاقے میں یہ پانی وافر مقدار میں دستیاب ہے وہاں اس کے پلانٹ لگا کر اس کو عالمی معیارات کے مطابق بوتلوں میں بھر کر اسے عالمی منڈی میں پہنچانا ہے جہاں اس کی مانگ اتنی ہے کہ ہم اس کے اگر صرف دو فیصد کو بھی پورا کر پائے تو ہمیں مزید کوئی شے برآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ان تمام علاقوں میں جہاں یہ پانی موجود ہے وہاں تک روڈ نیٹ ورک پہنچ چکا ہے ان علاقوں میں بجلی موجود ہے اور ہمارے پاس درگئی اور حویلیاں تک ریلوے ٹریک بھی موجود ہے جہاں سے اس کی ٹرانسپورٹیشن نہایت ہی کم خرچ میں ملک کے بندرگاہوں تک ہوسکتی ہے لیکن ہمارے ہاں اعلیٰ سطح کے منصوبہ ساز اور فیصلہ ساز پاکستان کو ان بحرانوں سے نکالنے کا مستقل حل ڈھونڈنے میں سنجیدہ نہیں ہیں اگر ان علاقوں میں جہاں گلیشیر کے پانی کے چشمے ہیں وہاں سو پلانٹ لگ جائیں تو ہم روزانہ ایک کروڑ بوتل پانی کے پیک کرکے مارکیٹ میں بیچ سکتے ہیں اگر ایک بوتل کی قیمت سو روپے رکھی جائے تو ایک دن کا سو کروڑ بنتا ہے حالانکہ اس پانی کی ایک بوتل مارکیٹ میں دس ہزار روپے سے زیادہ قیمت رکھتی ہے ہم اگر اس کی قیمت ان کے مقابلے میں دس گنا کم کردیں تو ایک ہزار کی ایک بوتل بکے گی یوں ہمیں ایک دن میں ایک ہزار کروڑ روپے ملیں گے ان سو پلانٹوں میں دس ہزار مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا یہ سب گپ شپ نہیں ہے اگر آپ کو شک ہے تو ابھی گوگل کریں اور گلیشیر منرل واٹر کی قیمت دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا اس کی کیا قیمت ہے اور اس کی مانگ کتنی ہے اور دنیا میں جس چیز کی سب سے زیادہ مانگ ہے اس میں یہ پانی بھی شامل ہے لیکن دنیا کے پاس یہ ہے نہیں اگر ہے بھی تو بہت کم مقدار میں ہے اور ہمارے پاس اس کے ذخائر اتنے ہیں کہ اگر ہم اپنی ساری آبادی کو اس کام پر لگادیں تو اس کا پندرہ فیصد بھی دنیا تک نہیں پہنچا سکتے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے پاس یہ خزانہ موجود ہے مگر نہ حکومت اور نہ ہی پرائیوٹ سکیٹر اس طرف کوئی توجہ دے رہا ہے حکومت اگر پالیسی بنائے تو عالمی سرمایہ کار بھی اس جانب فوراً راغب ہوسکتے ہیں اور اس میں کثیر سرمایہ کاری کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان علاقوں میں امن و آمان کو مثالی بنائیں اور بنیادی سہولیات وہاں حکومت مہیا کرے اس سلسلے میں خیبر پختونخوا میں ریلوے پر کچھ سرمایہ کاری کی جائے اس لیے کہ انگریزوں کے زمانے میں جو ریلوے ٹریک ملاکنڈ حویلیاں اور تورخم تک بنائے گئے تھے وہ سب اب فنکشنل نہیں ہیں جیسے یہاں کے لوگوں کو تو ریلوے کی ضرورت ہی نہیں ہے انسان تو صرف پنجاب میں بستے ہیں جہاں ریلوے کا نظام ابھی تک فعال ہے اور اس میں حکومت سرمایہ کاری بھی کرتی ہے معدنیات اور قدرتی وسائل خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں ہیں اس لیے ان علاقوں تک ریلوے کی سہولت پہنچانا بہت ضروری ہے تاکہ ان وسائل کو مارکیٹ یا بندرگاہوں تک پہنچانے میں آسانی ہو اور سرمایہ کار ان علاقوں میں جاکر سرمایہ کاری کرسکیں اس سے ان علاقوں میں بھی خوشحالی آئے گی لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہوجائے گی ۔ان علاقوں میں بجلی چونکہ قدرتی پانی کے بہاؤ سے حاصل کی جاتی ہے اس لیے بجلی پر لاگت بہت کم ہے اس لیے بجلی کی قیمت ان پلانٹوں کو کم نرخ پر دے کر بھی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جاسکتا ہے ہم یہ پانی چین کو بھی برآمد کرسکتے ہیں اس لیے کہ چین مہنگے داموں سالانہ ساٹھ ارب ڈالر سے زیادہ کا پانی یورپ اور دیگر ممالک سے درآمد کرتا ہے ہم زمینی راستے سے ان کو یہ پانی فراہم کرسکتے ہیں اس طرح ہمارے اور چین کے درمیان کسی حد تک تجارتی خسارہ کم ہوسکتا ہے اگر یہاں گلیشیر سپرنگ واٹر کے پلانٹ لگ جاتے ہیں تو اس سے کئی لاکھ لوگوں کو بلواسطہ یا بلاوسطہ روزگار ملے گا جو بڑھتا جائے گا ایک مثال کافی ہے سمجھانے کے لیے چین کا ایک شہر چن تاؤ (Tsingtao)جس میں ایک جرمن نے آکر بیئر کا ایک کارخانہ لگایا تھا یہ شہر شان ڈونگ صوبہ میں ہے آج چین کی سب سے بڑی برآمد اس شہر میں بنائی جانے والی بیئر ہے جس سے چین سالانہ چالیس بلین ڈالر زرمبادلہ کماتا ہے اس بیئر کے کاروبار سے اس شہر نے وہ فقید المثال ترقی کی ہے کہ آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے اس کاروبار کی وجہ سے وہاں دس لاکھ لوگوں کو روزگار ملا ہے وہ پورا شہر اسی کاروبار کے پیسے سے تعمیرہوا ہے اور اس کی بندرگاہ دنیا کی سب سے بہترین بندرگاہ کہلاتی ہے اس شہر میں اتنی بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہیں کہ ہر یونیورسٹی میں لاکھوں طلبا ہیں اور اس شہر کے سب باسی خوشحال ہیں ۔بیئر بنانے میں بہت زیادہ محنت درکار ہوتی ہے جو اگانی پڑتی ہے اس کو پروسس کرنا پڑتا ہے اور مخصوص وقت تک سٹور کرنا پڑتا ہے اس پر بڑے اخراجات اٹھتے ہیں جبکہ یہاں قدرت نے تیار پانی دیا ہوا ہے پیک کریں اور بیچیں ۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے