اشک گرنے کی بھی آواز ہوا کرتی ہے

کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں ایک بچی کی کہانی سامنے آئی تھی ‘اب یاد نہیں رہا کہ وہ کس ملک کا واقعہ تھا ‘ ممکن ہے قارئین کرام میں سے کئی لوگوں کی نظر سے وہ کہانی گزر بھی چکی ہو’ بہرحال مقام یا ملک کے تذکرے سے زیادہ اس کی اہمیت کہانی کے مندرجات کی ہے ‘ جو گزشتہ روز اس وقت یاد آئی جب ضلع ہزارہ کے بٹگرام کے علاقے الائی کی یونین کونسل پاشتو میں چیئر لفٹ میں پھنس جانے والے 8 طالب علموں کو ریسکیو کرنے کے حوالے سے 15 گھنٹے سے زیادہ وقت کے صبر آزما آپریشن کے بعد بالآخر ان افراد کو بہ حفاظت اتارلیاگیا ‘ جس میں اہم کردار افواج پاکستان کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کمانڈوز نے ادا کیا ‘محولہ علاقے میں چیئر لفٹ کے رسے ٹوٹ جانے کے بعد صورتحال اس وقت انتہائی مخدوش اور خطرناک ہو گئی تھی جب موسم تبدیل ہونے سے تیز ہوائیں چلنا شروع ہوئیں ‘ اس دوران افواج کے متعلقہ کمانڈوز اور ہیلی کاپٹرز کے کہنہ مشق پائلٹوں نے جس جانفشانی کا مظاہرہ کیا یہ سب کچھ ٹی وی چینلز پر عوام نے براہ راست دیکھا اور ہردل سے دعائیں اٹھ رہی تھیں ‘ اندھیرا پڑنے اور موسم کی صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے خطرات کے پیش نظر آپریشن کو وقتی طور پر روکنے تاہم مقامی طور پرمتبادل انتظام کے تحت ایک اور رسے کو گزار کرریسکیو کا کام جاری رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی اور بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے رات گیارہ بجے کے قریب تمام افراد کو بہ حفاظت زمین پراتارنے کے ساتھ ہی یہ آپریشن تکمیل تک پہنچا ۔ اس دوران چیئر لفٹ میں پھنس جانے والوں پر کیا بیتی اس حوالے سے ٹی وی چینلز کی لائیو کوریج کے دوران لمحے لمحے کی خبریں دیکھنے اور سننے والوں کوسب معلوم ہے اور ان میں حساس دلوں پر جو بیتتی رہی اس کا اندازہ اس شعر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
یہ الگ بات سنائی نہیں دیتی ورنہ
اشک گرنے کی بھی آواز ہوا کرتی ہے
بات آگے بڑھانے سے پہلے واپس کالم کے آغاز میں مذکورہ کہانی کی طرف چلتے ہیں جیسا کہ گزارش کی ہے کہ مقام اور ملک کی تفصیل ذہن سے اتر گئی ہے جبکہ محولہ کہانی اکثر کچھ لوگ بار بار پوسٹ کردیتے ہیں ‘ اس کی تفصیل کے حوالے سے اتنا یاد ہے کہ محولہ ملک کے کسی پہاڑی علاقے میں روزانہ ریل گاڑی صبح اور بعداز دوپہر دوبار چکر صرف اس لئے لگاتی ہے کہ وہاں سے گاڑی میں صرف ایک مسافر نے ا پنی منزل مقصود تک جانا اور دوپہر کو فارغ ہونے کے بعد واپس اپنے گائوں کولوٹنا ہوتا ہے یہ مسافر اور کوئی نہیں ایک دس گیارہ سال کی بچی ہے جو صبح سکول جانے کے لئے اسی ریل گاڑی میں جاتی اور چھٹی کے بعد واپس گھر لوٹتی ہے متعلقہ ملک کے ریلوے حکام نے کبھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ صرف ایک بچی کو لانے لے جانے پر ریل گاڑی میں اتنا ا یندھن کیوں خرچ کیا جائے؟ اس لئے کہ وہاں تعلیم کی اہمیت اور قدر کا احساس ہر شخص کو ہے قوموں کی اٹھان ‘ ان کی ترقی کا راز ایسی ہی پالیسیوں میں پنہاں ہوتا ہے جہاں عوام کی خدمت کے جذبے پروان چڑھتے ہیں ‘ اس کے برعکس ہماری صورتحال حضرت کلیم جلیسری کے اس شعر سے واضح ہوتی ہے
تلاش کرنے میں دقت کبھی نہیں ہوتی
وہ میرا گھر ہے جہاں روشنی نہیں ہوتی
گزشتہ روز جولوگ چیئر لفٹ میں پھنس کر موت و زیست کے کشمکش میں گھنٹوں مبتلا رہے ‘یہ وہی لوگ ہیں جو بڑے ہو کر ”ووٹر” بن کرزندہ باد مردہ باد کے نعرے لگانے کے لئے وعدوں اور خوابوں کی ٹرک کے پیچھے بھاگتے زندگی گزار دیتے ہیں انہیں وعدوں کے سبز باغ دکھانے والوں کی اپنی اولاد اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوتے ہوئے”جہانبانی” کے اسباق ازبر کرکے خود کواپنے بزرگوں کی طرح صرف اور صرف حاکم سمجھتے رہتے ہیں ‘ مگر ان کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دینے والوں کے لئے حصول علم کے دوران خطرناک اور بپھرے ہوئے دریا پار کرنے کے لئے کمزور رسیوں کے سہارے چلنے والے ”کھٹولے” ہی رہ جاتے ہیں۔ جن میں سینکڑوں فٹ بلندی پر آباد چھوٹی چھوٹی بستیوں اور سامنے کی چوٹی سے ملحق گائوں میں سکول تک آنے جانے کے لئے انہیں روزانہ کی بنیاد پر ”پل صراط” کوپار کرنا پڑتا ہے گویا بقول محسن احسان محروم
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندروں کے سفر پرکیاروانہ ہمیں
اس قسم کے”اڑان کھٹولے” خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں عام ہیں ‘ ضلع ہزارہ کے متعدد علاقوں ‘ سوات ‘ دیر ‘ چترال وغیرہ وغیرہ کے اندرگزرنے والے دریائوں پر اس قسم کے ”دیسی” چیئر لفٹ توبھی غنیمت ہیں سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹیں بھی عام مل جاتی ہیں جن میں دریائوں کو پار کرنے کے لئے یہ کھٹولے بھی دستیاب نہیں ہیں بلکہ صرف دو کیبل دریا کے دونوں کناروں پر نصب ہوتے ہیں جن میں سے ایک پر قدم قدم آگے بڑھنے جبکہ دوران”سفر” دوسرے کیبل کو پکڑ کرایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آنے جانے کی کوشش کی جاتی ہے ‘ حالانکہ ان علاقوں سے ووٹ حاصل کرکے ایوان ہائے اقتدار میں پہنچنے والے اگرچاہیں تو اپنے حصے کے ترقیاتی فنڈز کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ان دریائوں پر پلوں کی تعمیر سے متعلقہ علاقوں کے عوام کی زندگی آسان کرسکتے ہیں ‘ مگر 76سال گزر جانے کے بعد بھی محولہ علاقوں کے عوام اور خصوصاً بچے روزانہ ”پل صراط” سے گزرنے پر مجبور ہیں جبکہ متعلقہ عوام میں اس استحصالی نظام کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت ہی نہیں ہو رہی ہے ‘ اس لئے کہ اس نظام کی باگ ڈور ایسے طاقتور قوتوں کے ہاتھوں میں ہے جو ابتداء ہی سے ان علاقوں کے”خود ساختہ” مالک بن کر زبان کھولنے والوں کی”زبان درازی” پرانہیں جن حالات سے دو چار کرسکتے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے ہی نہیں قتیل شفائی نے خدا جانے کس ”ترنگ” میں آکر کہا تھا
میں نے تو قتیل اس سا منافق نہیں دیکھا
جو ظلم تو سہتا ہے ‘ بغاوت نہیں کرتا
اور فیض احمد فیض نے بھی تو نہایت شستہ انداز میں کہا تھا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
اب کوئی نہیں بولتا تواس کی مرضی ‘ مگر اب ان فرسودہ چیئر لفٹ کا زمانہ نہیں رہا ‘ اور پلوں کی تعمیر ناگزیر ہوچکی ہے ‘ بشرط یہ کہ ووٹ لینے والے توجہ دیں۔
کوزہ گرچاک سے اتار مجھے
دائرے میں سفر اذیت ہے

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے