مشرقیات

حضرت زکریا علیہ السلام کو قوم بنی اسرائیل اور پیغمبروں میں برگزیدہ بنا کر بھیجا گیا۔اللہ تعالی نے سورہ آل عمران میں فرمایا: ”خدا نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا۔ ان میں سے بعض بعض کی اولاد تھے اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے”۔زکریا علیہ السلام کی بیوی یحییٰ علیہ السلام کی والدہ اور مریم علیہ السلام کی والدہ حنا دونوں حقیقی بہنیں تھیں۔ جبکہ زکریا علیہ السلام رشتے میں مریم علیہ السلام کے خالو لگتے تھے۔حضرت عمران علیہ السلام کی بیوی نے منت مانی تھی کہ جو بچہ پیدا ہوگا۔ اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گی۔ حضرت مریم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد جب انہیں بیت المقدس میں لایا گیا۔ تو ان کی کفالت کی ذمہ داری اللہ نے حضرت زکریا علیہ السلام پر ڈالی۔ حضرت ذکریا علیہ السلام کی کفالت میں مریم علیہ السلام نے بہت اچھی پرورش پائی اور وہ نیک، عبادت گزار اور بہت زیادہ سچ بولنے والی تھی۔سورہ آل عمران میں ارشاد ہوا تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا اور زکریا کو ان کا متکلف بنایا۔ زکریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس (مریم علیہ السلام) کے پاس جاتے۔تو اس کے پاس کھانا پاتے کی کیفیت دیکھ کر۔ ایک دن مریم سے پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے۔ وہ بولیں خدا کے ہاں سے آتا ہے۔ بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے۔بخاری و مسلم ترمذی و نسائی کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ (مریم علیہ السلام) اپنے زمانے میں سب سے افضل عورت تھیں۔ اور اس امت میں خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ سب سے افضل عورت ہے۔زکریا علیہ السلام نے جب حضرت مریم علیہ السلام کی فضیلت دیکھی تو ان کے دل میں بھی اولاد کی خواہش پیدا ہوئی۔ کیونکہ اس وقت تک آپ بے اولاد تھے۔ جبکہ آپ کی عمر اس وقت سو سال سے زائد تھی اور بیوی نوے سال کی تھی۔اولاد کی شدید تمنا کے باعث انہوں نے اللہ سے مدد مانگی۔ جس کا ذکر یوں آتا ہے ترجمہ ”یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی کا بیان ہے جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی۔ جو میری اور اولاد یعقوب کی میراث کا مالک ہو اور اے میرے پروردگار اس کو خوش اطوار بناؤ۔
زکریا علیہ سلام اپنے دور میں اکیلے ہی نبی تھے۔ ان کے دور میں اصحاب و رشتہ دار میں کوئی قابل آدمی نہ تھا۔ تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور ان کو یحییٰ بخشے اور ان کی بیوی کو ان کے حسن معاشرت کے قابل بنا دیا۔ یہ لوگ لپک لپک کر نیکیاں کرتے اور ہمیں امید سے پکارتے اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے”۔انسان کتنے ہی بلند و بالا مقام پر پہنچ جائے اور اللہ کے ساتھ اسے زیادہ قرب حاصل ہو جائے۔ تب بھی وہ اللہ کا بندہ ہی رہتا ہے اور کسی بھی بلندی پر پہنچ کر وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا نہیں ہو سکتا، نہ اس کا شریک ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟