خلق خدا کی گھات میں رندو فقیر ومیر وپیر

ضرب ا لمثل تو ہے کہ ”نشتند وگفتندو برخواستند مگر یار لوگوں نے اس کو ”خوردند” کا تڑکہ لگاکر اسے مزید موثر بنا دیا ہے ‘ یوں گزشتہ روز کے اس اجلاس پر اس مقولے یا ضرب المثل کا اطلاق کئے جانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے جو وزیر اعظم کی صدارت میں بجلی بلوں میں ریلیف دینے کے حوالے سے منعقد ہوا تھا اور جس میں عوام کو ریلیف دینے کا کوئی فوری فیصلہ نہیں ہوسکا تھا بلکہ اسے مزید غور و فکر کامتقاضی سمجھتے ہوئے (دم تحریر) آگے بڑھاتے ہوئے اگلے 48گھنٹے میں ٹھوس اقدامات اور ممکنہ ریلیف کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی گئی ‘ وزیر اعظم نے کہا کہ جلد بازی میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے ملک کو نقصان ہو ‘ انہوں نے یہ بھی کہا اور بجا کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ عام آدمی مشکل میں ہو اور افسر شاہی اس کے ٹیکس پر مفت بجلی استعمال کرے ‘ ایک خبر یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازمین 34 کروڑ یونٹ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے مزید انکشاف یہ ہے کہ بجلی کمپنیوں کے ملازمین سالانہ تیرہ ارب کی بجلی مفت استعمال کرتے ہیں ‘ دوسری جانب وزارت توانائی نے بجلی قیمتوں سے متعلق اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اگست میں89اعشاریہ 33روپے یونٹ بجلی کی قیمت ہے ‘ گویا یہ جو اب تک ہم سنتے رہے ہیں کہ فی یونٹ بجلی پچاس روپے کے لگے بھگ ہوچکی ہے معاملہ اس سے بھی کہیں آگے جا کر عوام کی فلک بوس اور فلک شگاف چیخوں میں ڈھل رہا ہے ‘ علامہ اقبال نے کہا تھا
خلق خدا کی گھات میں رند وفقیر ومیر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی
عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اور سیاسی رہنما ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے ایسے بیانات دے رہے ہیں جن میں بجلی کے نرخوں میں اضافے پر اعتراضات کا ”سماں باندھا جارہا ہے”۔ مثلاً سیدخورشید شاہ کا تازہ بیان ہے ‘ نگران حکومت چاہے تو پندرہ روپے فی یونٹ کمی کر سکتی ہے ‘ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے تیس سال سے بجلی کے شعبے میں اصلاحات نہیں کی گئیں آج اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ‘ لیگ نون کے ایک اور اہم لیڈر سابق وفاقی وزیر خواجہ آصف نے فرمایا ہے کہ حکومت سستی بجلی کے لئے آئی ایم ایف سے بات کرے گویا وہ بھی میر کی سادگی کا شکار ہو ہی گئے ہیں یعنی
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوالیتے ہیں
آئی ایم ایف کے ساتھ نگران حکومت کیوں بات کرے؟ جب تحریک انصاف نے جاتے جاتے قوم کے ساتھ ناانصافی کی اور معاہدے پر یوٹرن لیتے ہوئے ملکی معیشت کو ڈیفالٹ کی گہری کھائی میں دھکیل دیا تھا اور اتحادیوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے باہر کیا تو انہیں چاہئے تھا کہ فوری طور پر اسمبلیاں توڑ کر انتخابات منعقد کرنے کی راہ پر گامزن ہو جاتے مگر یہ کم بخت اقتدار چیزی ہی ایسی ہے جوبعض ا وقات سانپ کے منہ میں چھپکلی بن کر بقول شخصے نہ نگلا جائے ہے ان سے نہ اگلا جائے ہے ان سے ‘ والی صورتحال اختیار کرلیتا ہے اور اصل صورتحال کا ادراک ہوتے ہی اتحادیوں کے ہوش اڑنے کے باوجود معاملہ اس ڈھول کی صورت میں ڈھل گیا تھا جسے گلے میں ڈالنے کے بعد”بجانے” کی مجبوری آن پڑ جائے ۔ دوسری طرف آئی ایم ایف نے اتحادیوں کے وہ کڑاکے نکالے کہ ان کی ہڈیاں تک چٹخ ا ٹھیں ‘ جاتے جاتے اتحادیوں نے جن شرائط پر معاہدہ کیا اس کی ”تہہ” میں عالمی سازشوں کو ڈھونڈنے میں زیادہ تردد کرنے کی ضرورت نہیں کہ تمام بیرونی ”قوتوں” کامقصد بہر صورت پاکستان کوڈیفالٹ کے چنگل میں پھنسانا ہی ہے ‘ اور اب صورتحال کچھ ایسی بن رہی ہے کہ بجلی کی قیمت میں”اضافے کی سیریز” پر سمجھوتہ ہونے کی خبریں توعام ہیں ‘ تو پھر جس عذاب میں آئی ایم ایف نے پاکستان مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر مبتلا کردیا ہے ‘ اس کے آگے تحریک حکومت کے یوٹرن کے بعد اتحادیوں نے بھی کوئی بند باندھنے کی حکمت عملی اختیار نہیں کی اور پاکستانی قوم کو ”مردہ بدست زندہ” کی مانند آئی ایم ایف کے آگے ڈال دیا ہے ‘ اس کا علاج نگران حکومت کیسے کر سکتی ہے؟ یہ تو گویا ویسی ہی صورتحال ہے جیسے کہ کشتی(ریسلنگ )کے اکھاڑے میں جب دو پہلوان اترتے ہیں تو اکھاڑے کے گرد بیٹھے ہوئے تماش بین پہلوانوں کے دائو پیچ پر تبصرے کرتے ہوئے انہیں مقابل پہلوان کوپچھاڑنے کے مشورے دیتے ہیں ‘ مگر ایسے لوگ اگر خود اکھاڑے میں داخل ہوکر مقابلہ کریں تو ان کی ہیکڑی نکل جاتی ہے اوہ وہ سارے مشورے بھول جاتے ہیں ۔ آج نگران حکومت کو آئی ایم ایف سے بات کرنے کے مشورے دینے والے کل تک خود مذاکرات کے ”اکھاڑے” میں تھے مگران کو دائوپیچ یاد ہی نہیں تھے کہ وہ آئی ایم ایف کو قرضے دیتے ہوئے ہاتھ ہولا رکھنے پرآمادہ کرتے ‘ تب تو سابق وزیر اعظم شہبازشریف جس طرح آئی ایف ایف کی ڈائریکٹر کے منت ترلے کر رہے تھے بلکہ ”صدقے واری” جارہے تھے اور سخت سے سخت شرائط پر بھی قرضے کے حصول کے لئے معاہدے پر دستخط کرنے کو تیار تھے تب پوری اتحادی حکومت کی زبانیں گنگ ہوگئی تھیں ‘ اور ہمارے اپنے ہی ایک شعر کی تفسیر بنے ہوئے تھے کہ
قلم قتلے ‘ زبانیں گنگ ‘ سوچوں پرکئی پہرے
جناب شیخ کے ہاں یوں بھی ہے اظہار کا موسم
اب تو بڑے میاں صاحب بھی فرما رہے ہیں کہ نون لیگ اقتدار میں آکر ملک سے مہنگائی کا خاتمہ کرے گی حالانکہ ابھی اقتدار کے حصول میں ایک لمبا سفر طے کرنا ہے اور بقول شاعر کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک ‘ ویسے بھی سید خورشید شاہ نے کہہ دیا ہے کہ نواز شریف کااکتوبر میں واپسی کاکوئی پروگرام نہیں ‘ یہ دعویٰ سید صاحب نے کس برتے پر کیا ہے ‘ ممکن ہے یہ جوخود نون لیگ کے درمیان بڑے میاں صاحب کی واپسی کی تاریخوں کے یقین کے حوالے سے کسی حتمی فیصلے پر نہ پہنچنے کی کیفیت ابھی تک واضح نہیں ہو رہی ہے یہ اسی کا ردعمل ہو’ لیکن ہم تو اس سے بھی آگے کی صورتحال دیکھ رہے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ میاں صاحب شاید اب مشکل ہی سے واپس آئیں ‘ کیونکہ ایک تو میاں صاحب کی راہ میں مبینہ طور پر خود ان کے چھوٹے میاں صاحب نے”باوردی سرنگیں” بچھانے کا کام کرتے ہوئے ان کی واپسی کی راہ کھوٹی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ‘ اور اس حوالے سے بعض واقفان حال تبصرہ اور تجزیہ نگار بھی اپنے تبصروں اور تجزیوں میں نشاندہی کر رہے ہیں ‘ پھر سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ میاں صاحب اگر آئیں گے توکس بیانئے کوبنیاد بنا کر لوگوں سے ووٹ کے طلبگار ہوں گے؟ کیونکہ وہ جو”مجھے کیوں نکالا؟” اور ”ووٹ کو عزت دو” کے نعرے تھے وہ توچھوٹے میاں صاحب کی کارستانیوں نے ڈبو دیئے ہیں رہ گئی بات مہنگائی کے خاتمے کی تو اب تو مہنگائی کاجادوایسا سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ لوگ تین وقت تو ایک طرف دووقت بھی رہنے دین ایک وقت کی روٹی کوترس رہے ہیں اور فریاد کناں ہیں کہ ”بچے چار روز سے بھوکے ہیں ‘ خدا کے لئے مدد کریں” جس کے بعد کی وائرل تصویریں عوام کی حالت زار پر ”فلیش لائٹ” سے روشنی ڈال رہی ہیں ‘ اور بجلی بلوں کی قیمتوں میں اضافے کے بعد عوام کے غیض غضب کے پیمانوں کو دیکھ کر بجلی والوں نے بھی اپنے تحفظ کیلئے یہ سوچ کر سرکار سے مدد مانگ لی ہے کہ بقول شاعر
خنجر بکف گروہ غلاماں ہے منتظر
آقا کبھی حصار کے باہر بھی آئے گا

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟