”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے”

یقین کیجئے یہ تحریر لکھنے کے لیے جب میں نے قلم اٹھایا تو قلم نے بغاوت کردی،صاف انکاری ہوگیا،لیکن بد قسمتی سے جب بھی قلم چلتا ہے تو نئی نسل کے خلاف لکھتا چلا جاتا ہے۔ہماری زبانیں نئی نسل کے خلاف بولتے نہیں تھکتیں ۔آج کا نوجوان کہاں کھڑا ہے۔ہم میں سے اکثر افراد کو اپنی ناکامیوں کو بدقسمتی اور مقدر کی خرابی کا نام دیتے ہیں ،حالانکہ یہ سراسر ہماری غلط حکمت عملی کے باعث سامنے آتی ہیں ۔دولت اور شہرت ہی کامیابی کی ضمانت نہیں بلکہ محنت کے بعد حاصل ہونے والی اجرت کم ہی کیوں نہ ہو انسان کو خدا کا شکر گزار بنا دیتی ہے ۔اپنے گریباں میں جھانک کے دیکھیں کہ نئی نسل نے کس کی انگلی پکڑ کے چلنا سیکھا ہے ۔اس نسل نے کس کی گود میں آنکھیں کھولی ہیں،وہ کون ہے جس نے ان کو یہ انداز سکھائے ہیں؟ قومی اسمبلی کی مختلف تقاریر میں ارباب اختیار کہتے ہیں کہ نوجوانوں کو بااختیار بنا کر انہیں ایسے مواقع فراہم کئے جائیں جس میں وہ سیاسی ومعاشرتی معاملات میں اپنا لوہا منواسکیں کیونکہ نوجوان ہی کسی قوم کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔کوئی ماں باپ نہیں کہتا کہ میری اولاد بگڑ گئی ہے۔میرا لڑکا یا لڑکی آوارہ یا بد چلن ہے۔اگر ہر والدین کی اولاد نیک وپارسا ہے تو یہ بدچلن آوارہ گرد لوگ کون ہیں ؟ کیا یہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں؟ میں بہرا نہیں ہوں،اپ بھی برے نہیں ہیں تو پھر معاشرے کا ناسور کون لوگ ہیں ؟ یہ کس دنیا کے تربیت یافتہ ہیں؟میرے پیارے نوجوانوں میرے ان سوالوں کا جواب شاید سب کے پاس ہو مگر ان کا جواب کوئی نہیں دے گا،لیکن میرے پیارے جوانوں اس سے پہلے کہ کل کوئی آپ سے یہی سوال کرے اور آپ اس کا جواب نہ دے سکیں تو براہ کرم ابھی وقت ہے سنبھل جا،آپ کے پاس علم بھی ہے اور انسانی نفسیات کو سمجھنے کے تمام تر وسائل بھی۔آپ نے بھی صاحب اولاد ہونا ہے کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد بھی آپ کے بارے میں یہی سوچے جو آپ کسی کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔کیا آپ اپنی اولاد کو اسی راستے پر چلائیں گے جس پر چل کر آپ نہ زندوں میں ہیں اور نہ مردوں میں ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے خوبصورت پھولوں کو کلاشنکوف سے دور رکھیں اور وہ سکون کی تلاش میں اس زہر سے دور رہیں جسے آئس کہتے ہیں جو آج کل سر عام دستیاب ہے تو خدا کے لیے اپنا محاسبہ کیجئے۔کیا کسی میں اتنا حوصلہ ہے کہ ان معصوموں پر اپنے اندر کے وحشی کو ظاہر کردے۔جھوٹ کا لبادہ اتار پھینکیں۔یقین کریں ہم خود کو فرشتہ ظاہر کرنے والوں کے اندر کا وحشی جب ان پر ظاہر ہوتا ہے تو ان پھولوں کی شخصیت اس پنڈولم کی طرح ہوجاتی ہے جو نفرت اور محبت کے درمیان لٹکا ہوا ہو۔یہاں وہ خوبصورت بت جو آپ کی شخصیت کا اس نے اپنے دل ودماغ میں سجا رکھا ہوتا ہے کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔ذرا غور سے دیکھیں کہیں یہ وہی خون تو نہیں جو ان نوجوانوں کی آنکھوں میں اتر آیا ہے ۔انسانی ذہن صرف عیاشی کی طرف جھکتا ہے ۔کاش یہ سوچ لیں آپ،ہم کہ اس نسل یا آئندہ آنے والی نسل کو برا کہنے سے پہلے ہم خود کو سنوار لیں ۔ہماری گود ایسی تربیت گاہ بن جائے جس کی تربیت یافتہ زندہ دفن کرنے کے قابل نہیں سینے سے لگانے کے قابل ہو۔ہمارے اردگرد کیا کچھ نہیں ہوتا ، ہمارے جوانوں کے روزمرہ زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے ،آج کل کے جوان حسینائوں کے خوابوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں،ہٹلر نے اپنے دور حکومت میں حکم دیا کہ خوبصورت عورت کو جہاں دیکھو وہیں قتل کردو کیونکہ جنگ محبت سے بہتر ہے،جنگ کے آخر میں تم زندہ رہتے ہو یا مرجاتے ہو لیکن محبت کے آخر میں تم نہ مرتے ہو نہ جیتے ہو۔میری زندگی کا ناقابل فراموش اور دل خراش واقعہ یاد آیا ہوا کچھ یوں کہ ہمارے علاقے میں محبت کی شادی ہوئی،لڑکا اور لڑکی دونوں کھاتے پیتے گھرانے کے تھے،پر لڑکی والے شادی پر رضامند نہیں تھے۔لڑکی بضد تھی کہ شادی کرلے ورنہ میری ڈولی نہیں جنازہ اٹھے گا۔لڑکی کی ضد کے سامنے والدین کوہتھیار ڈالنا پڑے۔شادی اتنی دھوم دھام سے ہوئی کہ لڑکی کی محبت،دلیری کے ساتھ ساتھ اس دھوم دھام سے ہونے والی شادی کی مثالیں دی جانے لگیں۔اس خوش وخرم جوڑے کی وجہ سے لڑکی کا سسرال حقیقت میں جنت کا نمونہ بن گیا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی پیدا ہوئی،یوں بیٹی کی شکل میں اللہ تعالی نے رحمت کا دروازہ بھی ان پر کھول دیا ۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد لڑکی خاموش خاموش اور اداس اداس رہنے لگی۔والدین اداسی کا سبب پوچھتے تو لڑکی ہنس دیتی اس کی ہنسی کے پیچھے کتنا کرب چھپا تھا۔ہر دوسرے تیسرے دن پتہ چلتا کہ لڑکے نے لڑکی کو مارا ہے،انہی لوگوں نے جو ان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اب عجیب وغریب قصے گھڑ لئے۔کچھ عورتوں کا خیال تھا کہ کسی دل جلی نے انہیں کچھ کردیا ہے ۔بعض کی انگلیاں اس کی ساس کی طرف اٹھتی تھیں،ادھر ادھر کے لوگوں کی عجیب وغریب باتوں نے بھی اس بے چاری کی زندگی عذاب بنا دی۔کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ ساس اور بہو میں پھلے بھی محبت تھی اور اب بھی ہے۔کسی نے اس پیدا ہونے والی معصوم بیٹی کو منحوس قرار دیا،جو بیٹی رب کی رحمت تھی اسے زحمت سمجھا جانے لگا۔یہ سب قیاس آرائیاں تھیں اصل حقیقت اللہ کو ہی معلوم تھی۔ایک دن میں نے مذکورہ لڑکے کو ایک کانفرنس میں گم صم بیٹھے دیکھا تو اس کے پاس چلا گیا اس نے میرے سلام کا جواب تو دیا مگر اس کے بعد دوبارہ اپنی خیالی دنیا میں یوں کھوگیا جیسے وہ وہاں اکیلا ہی ہو۔اگر تفصیل سے لکھوں تو بات زیادہ لمبی ہوجائیگی مختصرا یہ کہ وہ مجھ پر مکمل بھروسہ کرنے لگا اور اپنے گھریلو معاملات کے بارے میں کھل کر بات کرنے لگا مگر اس معاملے پر اس نے ابھی تک پردہ ڈالا ہوا تھا۔آخر کار بولا جناب میں اور میری بیوی جس عذاب میں مبتلا ہیں وہ بتانے کے قابل نہیں ہے۔میں نے اسے بہت تسلی دی اور کہنے پر مجبور کیا تو جھجکتے شرماتے مجھے بتایا کہ میں جب بھی بیوی کے پاس جاتا ہوں تو اس کی حالت ایسی ہوجاتی ہے جیسے وہ مرنے لگی ہو،یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی لاش ہو۔میری زندگی عذاب بن گئی ہے وہ نہ ہنستی ہے نہ روتی ہے اور نہ کچھ بولتی ہے۔میرے مارنے پیٹنے کے باوجود بھی خاموش رہتی ہے۔یہ گھر بھی نہیں چھوڑتی،میکے بھی نہیں جاتی کیا کروں،میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔میں نے اس کی ہر خواہش پوری کی ہے،دولت کی ہمارے پاس کوئی کمی نہیں ہے یوں سمجھئے سوائے سکون کے ہمارے پاس سب کچھ ہے۔بڑے بڑے عامل بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ہم ہزاروں روپے خرچ کر چکے ہیں ۔ساتھ ساتھ مجھے حالات کی ستائی اور عاملوں سے گھبرائی ہوئی لڑکی سے بات کرنے کا موقع ملا۔جس کی خوبصورتی اور جوانی کی مثالیں دی جاتی تھیں آج میرے سامنے ہڈیوں کے ڈھانچے کے شکل میں بیٹھی تھی،میں نے بات یوں شروع کی آپ کے تو محبت کی شادی ہوئی تھی کیا بات ہے،بولی محبت تو مجھے اب بھی بہت ہے ان سے، آپ سے کس نے کہہ دیا کہ مجھے ان سے محبت نہیں ہے ۔یہ کہتے ہی اس کی چیخ نکل گئی۔دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد جو کچھ اس نے مجھے بتایا اس کی زبانی سینئے۔یہ میرا آئیڈیل تھا ،میرے دل اور میرے گھر کا بادشاہ،نیک اور جوانمرد، پھر میں نے کہا جوانمرد تو وہ اب بھی ہے بولی نہیں جوانمرد اور نیک بالکل نہیں جو نشے سے مات کھا جائے وہ جوانمرد نہیں ہوتا۔وہ بہت بزدل اور چھوٹا انسان ہوتا ہے جو اپنی بیٹی کی پیدائش پر افسوس کرے۔وہ میرا آئیڈیل نہیں ہوسکتا۔میرا آئیڈیل اس دن مرگیا تھا جس دن اس نے اپنی بیٹی سے نفرت کی آوارہ اور نشئی ہوا،کیا آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ آپ کی ناکام خواہشیں ،کچلے ہوے جذبات واحساسات کا خوف کہاں چلا جاتا ہے ۔آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ دوسروں کو برا بھلا کہنے سے پہلے ہم خود کو سنوار لیں۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں