مشرقیات

میکسم گورکی کو جب نانا نے گھر سے نکال دیا۔ تو وہ ہماری طرح رونے نہیں لگا اور نہ اس نے گلے شکوے شروع کیے بلکہ اس نے ایک جوتے والی دکان پر ملازمت شروع کی۔ جہاں طرح طرح کے گاہک آیا کرتے تھے۔ یہاں اس نے پہلے پہل دنیا کا حال دنیا والوں کی زبانی سنا، عیاشی اور بدکاری کی داستانیں سنیں۔ دکان چھوڑنے کے بعد کئی مہینے تک ایک جہاز کے باورچی خانے میں برتن دھو کر پیٹ پالتا رہا۔ باورچی پہلا شخص تھا جس نے نوجون گورکی کی تعلیم پر توجہ کی اور یہ اسی کا احسان تھا کہ گورکی نے ذرا پڑھنا لکھنا سیکھ لیا۔ مگر برتن دھونے کا کام ایسا تھا کہ گورکی سے ہوتا نہ تھا۔ وہ اس کام سے پیچھا چھڑا کر کسی شہر میں ایک ایسی عورت کے پاس نوکر ہو گئے جہاں شعر و شاعری اور موسیقی کا خاصا چرچا رہتا تھا اور گورکی کو ادب سے خاص لگاؤ پیدا ہو گیا، جس نے تعلیم کے شوق کو بہت بڑھادیا۔ پندرہ برس کی عمر میں گورکی نے شہر کازان کے ایک اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اور تعلیم سے مایوس ہوکر اس نے ایک نان بائی کے یہاں ملازمت کرلی۔ گورکی کو چند ایسے طالب علموں سے ملنے کا اتفاق ہوا جنہوں نے اس کے ذہن میں انقلاب پسندی کے بیج بو دیے۔ اس کے بعد گورکی نے ہر چیز کو خیرباد کہا اور جنوب و جنوب مشرقی روس میں دو تین سال تک بے کار پھرتا رہے۔ 1890ء میں وہ نووگورود کے ایک وکیل کا محرر ہو گیا اور وکیل کی ہمدردی اور ہمت افزائی کی بدولت اس کی علمی اور ادبی قابلیت اتنی ہو گئی کہ وہ افسانے لکھنے لگا۔ 1892ء میں اس کا پہلا افسانہ شائع ہوا۔ اگرچہ اس وقت وہ پھر آوارہ گردی کرنے لگا تھا لیکن اس نے افسانہ نویسی بھی جاری رکھی۔ تین سال کے اندر گورکی کو افسانہ نگاری سے خاصی آمدنی ہونے لگی۔ 1898ء میں اس کے افسانوں کا مجموعہ دو جلدوں میں شائع ہوا اور کچھ عرصے کے اندر وہ روس ہی میں نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ غیر ممالک میں مشہور اور ہر دل عزیز ہو گیا۔ادبی حیثیت بڑھی تو گورکی پیٹرز برگ میں آکر رہنے لگے۔ یہاں اس کے انقلاب پسندوں سے تعلقات ہو گئے۔ وہ خود کارل مارکس اور اشتراکیت کی تعلیم کا معتقد ہو گیا ۔ تین سال بعد، جب 1905ء میں پہلے انقلاب روس کی تحریک اْٹھ رہی تھی تو گورکی قید کر دیا گیا۔ انقلاب کا خاتمہ کر دیا گیا تو گورکی امریکا چلا گیا۔ امریکا میں اس کا بڑی دھوم دھام سے استقبال کیا گیا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ بیوی جو گورکی کے ساتھ آئی ہے بیوی نہیں صرف دوست ہے تو سب اس سے خفا ہو گئے۔۔ روس کے یہ مشہور انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی 1936 میں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ جنہوں نے اپنی تحریروں سے دنیا کے بہت بڑے حصے کو متاثر کیا، انقلاب میں ایک نئی روح پھونک دی اور دنیا کے مظلوم طبقے و پسے ہوئے لوگوں میں امید کی ایک نئی لہر پیدا کردی جس کی بازگشت آج تک جاری ہے۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں