ابتر معاشی صورتحال قابل توجہ امر

نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال اندازے سے کہیں زیادہ خراب ہے ‘ ہمارے پاس مالی گنجائش نہیں ہے جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے ‘ اور اگر آئی ایم ایف پروگرام پرعمل درآمد نہیں کرتے توحالات مزیدمشکل ہوسکتے ہیں ‘ سینیٹرمانڈوی والا کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں نگران وزیرخزانہ نے بریفنگ کے دوران ملک کی موجودہ معاشی صورتحال بالخصوص بجلی کے زائد بلوں کے حوالے سے کمیٹی کے ارکان کے سوالات کاجواب دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری اداروں کانقصان ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے’ لہٰذا نجکاری کے عمل کو تیز کرنا ہوگا ‘ انہوں نے کہا کہ جو ادارے نجکاری کے لئے تیار ہو چکے ہیں ان کی فوری نجکاری کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی 70فیصد آمدن قرضے اتارنے پر خرچ ہو رہی ہے’ نگران وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈالر ان فلو کم اور آئوٹ فلو زیادہ ہونے کے باعث روپیہ دبائوکا شکار ہے ‘ اور آئندہ منتخب حکومت کو آئی پی پیز سے دوبارہ بات چیت کرنا ضروری ہے ‘ اگر آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد نہیں کرتے توڈالر ان فلو رک جائے گا اور حالات مزید مشکل ہوسکتے ہیں ‘ ادھر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے بجلی بلوں میں ریلیف کی صورت میں ٹیکس وصولیوں سے متعلق سوالات پوچھ لئے ‘ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف حکام اور ایف بی آر کے ورچول مذاکرات ہوئے جس میں چیئرمین ایف بی آر اور دیگر حکام نے شرکت کی ‘ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹرشمشاد اختر نے آئی ایم ایف کی نمائندہ الیسٹرپیریز سے رابطہ کرکے بجلی بلوں میں ریلیف کے لئے بات چیت کی اور تجاویز پیش کی ‘ آئی ایم ایف حکام نے ایف بی آر سے پوچھا کہ بجلی بلوں میں ریلیف دیا جائے تو ٹیکس وصولیوں میں کتنی رقم کم ہو گی بجلی بلوں ریلیف ٹیکس کم دیں گے یاکسی اور مد سے یہ رقم نکالیں گے’ اس حوالے سے آئی ایم ایف نے بجلی بلوں میں ریلیف کے لئے تحریری پلان طلب کرلیاہے جہاں تک ملکی معیشت کی گھمبیر ہوتی ہوئی صورتحال کا تعلق ہے تو ٹریڈنگ اکنامکس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ‘نائیجیریااور لائوس کو پیچھے چھوڑ کر مہنگائی میں بہت سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں 18ویں نمبر پرآگیا ہے ‘وہیں ایشیاء میں پاکستان زقند بھر کر چوتھے نمبرپرآگیا ہے جہاں مہنگائی تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے ‘ ایران ‘ شام اور لبنان ایشیاء کے واحد ممالک ہیں جہاں مہنگائی پاکستان سے بھی زیادہ ہے ۔ نائیجیریا اور لائوس میں افراط زر کی شرح بالترتیب 24.28 اور 27.8 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 28.3 فیصد سے بڑھ گئی ہے ٹریڈنگ اکنامکس کی سرکاری ویب سائیٹ کے مطابق حیرت کی بات ہے کہ تمام ممالک میں سے افغانستان میں مہنگائی سب سے کم شرح 6.5فیصد ریکارڈ کی گئی ہے ‘ ادھر نگران وفاقی وزیراطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ احتجاج اور بل جلانے سے بجلی سستی نہیں ہو گی ۔ پرامن احتجاج عوام کا حق ہے ‘ پرتشدد حملے سرکاری عملے کو نشانہ بنانے کی اجازت کسی کو نہیں ‘ فہم و فراست سمجھ بوجھ اور بہتر حکومتی اقدامات سے ہی یہ مسائل حل ہوں گے ۔ جہاں تک حکومتی اقدامات کا تعلق ہے تو ہمارے خیال میں نگران وزیر خزانہ کی وضاحت کے بعدعوام کی ساری امیدیں خاک میں ملتی نظر آرہی ہیں ‘ اور اگر بہ فرض محال آئی ایم ایف کے ساتھ بجلی بلوں میں ریلیف کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ ہو بھی جاتا ہے جس کی موجودہ صورتحال میں امید کم کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے تو اس سے عوام کو کیافائدہ ہوگا؟ اس لئے کہ ابھی بجلی کے مزید مہنگا ہونے کی خبریں سامنے آرہی ہیں ‘ اور اگر موجودہ بلوں کو تین یا چاراقساط میں تقسیم کربھی دیا جائے تواگلے مہینے بجلی نرخوں میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ بقایا جات کی قسط شامل کرنے سے بلوں کی رقم مزید بڑھ جائے گی ‘ یوں ایک نہ ختم ہونے والی پریشان کن صورتحال جاری رہے گی اور عوام کی چیخیں یونہی آسمان کوچھوتی رہیں گی ‘ اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے حوالے سے بھی ہے ‘ جس میں سابقہ حکومتوں نے ملک کو پھنسا کر مشکل میں ڈال رکھا ہے ‘ ان معاہدوں کے تحت نہ صرف فیول اور گیس کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے بلکہ آئی پی پیز کے گرڈ سٹیشنز مقررہ طاقت کے مطابق بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ‘ ان کو گرڈ سٹیشنز کی صلاحیت کے مطابق ادائیگی کرنے کی بین الاقوامی ضمانت حاصل ہے ‘ اور یہی وہ انتہائی شرمناک شرط ہے جس نے ملک کو عذاب سے دو چار کر رکھا ہے ‘ اس صورتحال کے پیش نظر نگران وزیر خزانہ ڈاکٹرشمشاد اختر کی یہ بات تشویشناک حد تک درست ہے کہ ملکی معاشی صورتحال اندازے سے بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دی جا سکتی ‘ کیونکہ سابق عمران حکومت نے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ کرکے یوں ٹرن لینے کے بعد سارا ملبہ آنے والی (سابق اتحادی حکومت) پرڈال دیا تھا ‘ جودعوئوں کے باوجود معاشی صورتحال کو درست کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی تھی اور آخری دنوں میں بڑی مشکل سے ایک اور معاہدے پر آئی ایم ایف کو آمادہ کرکے ایک بارپھر ملکی معیشت کو مشکلات سے دوچارکرکے رخصت ہوگئی ‘ اب جہاں تک موجودہ نگران حکومت کاتعلق ہے تو اس کے پاس پہلے سے ہوئے معاہدے پرعمل درآمد کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ اپنے محدود مینڈیٹ میں رہتے ہوئے ہی ملکی معیشت کو چلاسکتی ہے ‘ لیکن اس صورتحال میں سوال عوام کی مشکلات سے نجات کا ہے فی الحال دور دو تک نظر نہیں آتی ‘ اور اگر یہ سلسلہ یونہی برقرار رہا تو حالات مزید کس قدرگھمبیر ہو سکتے ہیں اور عوام کا اس پرکیا رد عمل ہوگا ‘ اس بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا انتہائی مشکل امر ہے ‘ ماسوائے اس کے کہ جس طرح ملک بھرمیں ”مراعات یافتہ طبقات” کومزید قومی خزانے سے آسانیاں فراہم کرنے کی پالیسی پرنظر ثانی کرنے کے مطالبات کئے جارہے ہیں جبکہ جوطبقات اپنے حصے کا ٹیکس ادانہیں کرتے ان کو بھی ٹیکس نیٹ میں لا کرمجموعی ملکی معاشی صورتحال کو بہتر ی کی جانب گامزن کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں