مشرقیات

اسلام نے جہاں ہمیں اور بہت سی باتیں سکھائیں وہاں یہ بھی بتایا کہ محنت کی عظمت کیا ہوتی ہے !یہ نہیں کہ صرف یہ اصول بتا دیا گیا بلکہ اللہ کے نبی اور آپۖ کے صحابہ نے اس پر عمل کرکے دکھلایا۔
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدالکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا آپ بازار گئے وہاں سے کپڑا خریدا دکاندار نے کپڑا باندھ کے آپۖ کو پیش کیا تو میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے لے لیا اللہ کے نبی نے فرمایا لائو اسے مجھے دے دو حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں یہ بات مجھے اچھی نہ معلوم ہوتی تھی کہ میرا ساتھ ہو اور اللہ کے نبیۖ سامان اٹھا کر لے جائیں لیکن آپۖ کا حکم تھا مجبوراً تعمیل حکم میں کپڑا میں نے آپۖ کے حوالے کر دیا۔ارشاد ہوا کہ جس کا سامان ہو اسی کو اٹھانا چاہئے مکے کے بت پرست اور یہود و نصاریٰ پر اعتراض کرتے تو کہتے تھے ۔۔۔ یہ کیسے نبی ہیں کہ بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں اپنا کام آپ کرتے ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ اس وقت ہی نہیں آج بھی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ بڑے آدمی کو چھوٹے چھوٹے کام نہیں کرنا چاہئیں اللہ کے رسولۖ نے ہمیں سبق دیا کہ یہ بیکار بات ہے اپنا یا دوسروں کا چھوٹے سے چھوٹاکام کرنا آدمی کے مرتبے کو گراتا نہیں بلکہ بڑھاتا ہے ۔
حضرت ابوبکر کپڑے کی تجارت کرتے تھے کندھے پر تھان ڈالے بازار میں جاتے اورفروخت کرتے آپ خلیفہ بن گئے تب بھی یہی کام کرتے رہے خلیفہ بن کر بھی آپ محلے کے بعض گھرانوں میں جاتے ان کی بکریوں کا دودھ نکالتے اور ان کا سامان بازار سے لادیا کرتے تھے ۔حضرت عمر خلیفہ بنے تو دنیا نے کئی بار یہ نظارہ دیکھا کہ وہ بیت المال کے گودام سے آٹے کی بوری پیٹھ پر لاد کرکے لے جاتے اور لوگوں میں تقسیم کرتے ۔حضرت علی کنویں سے پانی نکالتے بازار میں سامان ڈھوتے محنت میں کبھی کوئی عار محسوس نہ کرتے اللہ کے ان جلیل القدر بندوں نے ہمیں بتایا کہ بڑائی چھوٹائی کام کی وجہ سے نہیں آدمی کے اخلاق اور کردار کی وجہ سے ہوتی ہے محنت میں تو عظمت ہی عظمت ہے کوئی پیغمبر ایسا نہیں جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ کام کرتے رہے ۔سر پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھا کر گزرنے والے اپنے کھجوروں کے باغ سے نکل کر اپنے گھر جارہے تھے یہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی مملکت کے حاکم بھی تھے اور مسلمانوں میں سب سے زیادہ امیر آدمی بھی تھے لوگوں نے اس حال میں انہیں دیکھا تو سلام کیا اور بولے امیر المومنین آپ کیوں وزن ڈھو رہے ہیں؟ امیر المومنین حضرت عثمان نے جواب دیا دوستو میں اپنے نفس کو آزما رہا ہوں دیکھ رہا ہوں کہ لوگوں کے سامنے اپنا کام کرنے سے مجھے جھجک تو محسوس نہیں ہوتی حضرت عثمان کا اپنے نفس کو آزمانا تو خیر کیا تھا مسلمانوں کو ایک بار پھر یہ سبق یاد دلانا مقصد تھا کہ اللہ کے رسولۖ اپنا ہر کام خود اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے اسلام نے قیادت کا بڑاکھرا معیار رکھا ہے رہبر اور رہنما جب تک خود نمونہ بن کر نہ دکھلائیں معاشرہ سدھر نہیں سکتا ۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے