ابتداء تو کیجئے

نگراں وفاقی وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ ہماری 50 فیصد معیشت ڈاکومنٹڈ نہیں ہے، ملکی معیشت کی مکمل ڈاکومنٹیشن کی ضرورت ہے۔ لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیر تجارت نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس پراڈکٹس نہیں، ہم نے ایکسپورٹ کلچر متعارف ہی نہیں کرایا، ہمارا ملک 25 کروڑ آبادی کا ہے اور ہماری ایکسپورٹ 27 ارب ڈالر ہے۔نگران وزیر تجارت نے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے بیانات کی طرح ناامیدی کا اظہار کرنے کی بجائے ایک ایسے امکان کا ذکر کیا ہے جس پرتوجہ دی جائے اور عملی طور پراس کی سعی ہو تو اگرچہ یہ ہمارے مسائل کا جزوی حل بھی شاید نہ ہولیکن بہرحال کچھ ایسی بہتری کی صورت ضرور نکل سکتی ہے کہ سارا بوجھ عام آدمی کی طرف منتقل کرنے کی شرح میں کچھ کمی واقع ہو ۔ ملک میں معیشت کو دستاویزی بنانے کی ضرورت پر ہر وقت زور دیا جاتا ہے لیکن حکومتوں میں وہ عزم اور پارلیمان میں وہ قوت فیصلہ نہیں کہ سخت قوانین بنا کر ان کو پوری قوت سے نافذ کیا جائے جس ملک کی پچاس فیصد معیشت ہی دستاویز ی نہ ہو اور جو دستاویزی ہو بھی توٹیکس و محصولات کی ادائیگی میں ملی بھگت ہو رہی ہو سمگلنگ اور غیر قانونی طریقوں سے اشیاء و مصنوعات مارکیٹوں میں کھلے عام فروخت ہو رہے ہوں پٹرول سے لے کر عام گھریلو اشیاء تک کی کھلے عام سمگلنگ میں سرکاری اور ملکی ادارے یا تو ملوث ہوں یاپھر اس سے صرف نظر کی پالیسی رکھتے ہوں اس ملک کی معیشت کبھی بھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی سمگلنگ کے باعث ملکی مصنوعات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے قیمتی زرمبادلہ غیر قانونی طور پر باہر جاتی ہے اور خرچ ہوتی ہے اور یہ ایک گھن چکر برسوں سے چل رہا ہے جب تک تمام عوامل کا جائزہ لے کرملک کے تمام اہم ادارے تعاون کی راہ اپنا کر ہر قسم کی سمگلنگ اور غیر قانونی دھندے کی روک تھام نہیں کرتے برآمدات میں اضافہ نہیں ہوتا اور ان تمام شعبوں پر ٹیکس کا منصفانہ نفاذ نہیں ہوتا جو ٹیکس دینے کے متحمل ہوسکتے ہیں اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اس طرف جلد یا بدیر متوجہ ہونا ہوگا جتنا جلد ہوا جائے اتنا بہتر ہوگا۔مشکل امر یہ ہے کہ وطن عزیز میں جولوگ ٹیکس کی پالیسیاں بناتے ہیں وہ خود ٹیکس دینے کے اہل ہونے کے باوجود ٹیکس نہیں دیتے۔امید کی جا سکتی ہے کہ ملک کے عظیم تر مفاد میں ایسے تمام شعبوں اور افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے حقوق کی بازیافت