” جستجو سے سرمدی نغمہ تک ”

طرفہ بن العبد البکری نے کہا میرے رفیقانِ سفر نے اس مقام پر اپنی سواریاں روک لیں۔ میری بے چینی کو دیکھ کر کہنے لگے کہ اب تم صبر کرو اور زیادہ رنج و غم میں مبتلا ہوکر خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ سو اب یہی حالت ہے . دادرسی کے لئے آواز بلند کرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف سمجھا کہا جارہا ہے۔ زندگی وہی زندگانی جس کے بارے سچل سرمست سے سوال ہوا زندگی کیا ہے؟ مٹھی بھر ریت ہوا کے دوش پر رکھتے ہوئے سچل بولے فقط یہ۔ پھر سوال کرنے والے کی طرف دیکھا اور بولے جستجو سے خالی زندگی کمہار کے اس ناقص گھڑے کی طرح ہے جو پانی ٹھنڈا نہ کرسکے۔ کتنے لوگ جستجو کو حقِ زندگی سمجھتے ہیں؟ چند ہوں گے دس ہزار کے بیچ۔ حالت یہ ہے کہ نسل در نسل عقیدتوں کا بوجھ لادے زندگی کے صحرا میں چلتے ہوئے یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ جستجو پر قدغن لگاتے عقیدے ارتقاکے دوست ہیں یا دشمن۔ حافظ شیرازی کے بقول تلاش کا سفر زندگی سے جڑا نہ ہوتو خالی برتن فقط شور پیداکرتا ہے۔ ہمارے چار اور عجیب سماں ہے۔ دوسرے سے اس کی رائے دریافت کرنے کی زحمت کرنے کے بجائے ہم اپنی سوچ اور فیصلے کو اس کی رائے بناکر پیش کرتے ہیں۔ گاہے یہ اصرار بھی کہ تم یہی ہو نا۔ ہم تو جانتے تھے۔ ارے بھیا کیسے جانتے تھے۔ وحی اترنے کا سلسلہ کب کا رک چکا۔ دلوں کے بھید تو اِک وہی جانتا ہے۔ وہ جو وارث شاہ نے کہا تھا بھید کے صندوق کے تالے کی چابی کب ملتی ہے۔ مرشدِکریم حضرت سیدی بلھے شاہ نے کہا بھیدوں کو پا لینے کے اقرار سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو حق سے روشناس کرایا جائے۔ تلسی داس نے کہا تھا خواب اچھے لگتے ہیں مگر آنکھ کھل جانے کا خوف خواب دیکھنے نہیں دیتا۔
شہید سرمد سے کسی نے پوچھا اورنگزیب سے اس قدر ناراضگی۔یہ تو نفرت کی ایک انتہا ہے؟ سرمد نے زمین سے خاک اٹھاکر اپنے سر میں ڈالی اور کہا کاش ایسا ہوتا پر ایسا ہے نہیں۔ اس کے دامن پر داراشکوہ کے خون کے ہی نہیں انصاف کے قتل کے بھی دھبے ہیں۔ نفس کے گھوڑے پر سوار نے لذت اقتدار کے لئے علم و عمل کی زینت کو قتل کردیا۔ حسین لوائی نے ایک دن کہا تھا ذات تھوڑا ہی زندہ رہتی ہے پورے کا پورا انسان زندہ رہتا ہے۔ شاہ لطیف نے ہمیش کی اس زندگانی کے لئے دو باتوں کو اہمیت دی اولاً علم و جستجو اور ثانیا سرمدی نغمہ۔ اب عصری شعور کے ساتھ سرمدی نغمہ الاپنے والے جانتے ہیں کہ اپنے لہو کا ساز بجانا پڑتا ہے۔ سرمدی نغمہ الاپنے کے لئے . یہ ہر کس و ناکس کے بس میں کہاں۔ جبھی تو مرشدِکریم سیدی بلھے شاہ فرماتے ہیں یہ راز تو عیاں ہے کہ زندگی کی محبت آدمی کو حق سے دور کردیتی ہے۔ نفس کو فتح کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ جس نے الف کا بھید پایا وہی رنگا گیا۔ کم ظرفوں کے لئے اِک الف کا بوجھ اٹھانا مشکل ہے۔ دوست کو منانے میں پل بھر کی تاخیر قیامت ڈھا دیتی ہے۔ خواہشوں کے بے لگام گھوڑے پر سواری اسے ہلاکت میں نہیں ڈالتی جو اسی گھوڑے کی ٹاپوں سے خواہشوں کو روند ڈالے”
بہت سال ہوتے ہیں شاہ کے مرقد پر فقیر راحموں نے کہا تھا یار جب وہ حساب مانگے گا تو سیدھے سبھا کہہ دیں گے دوستوں سے حساب کون کرتا ہے۔ دیکھنا فقط یہ چاہیے کہ حقِ دوستی ادا ہوا کہ نہیں ہائے کس عہد میں جینے پر مجبور ہیں چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کی سوچ کا جس میں وحشیانہ رقص جاری ہے۔ ایسے میں کون ہے جو سامی کی طرح کہے میرے محبوب میری ذات کے کج نہ دیکھ بس یہ دیکھ کہ تیری مخلوق سے برتائو کیسا تھا۔ قتلِ منصور کو حق کی سربلندی جانتے لوگ کیا سمجھیں گے۔ زندگی کی سچائی کیا ہے۔ سوال کس کے سامنے رکھیں۔ سوال تو کفر قرار پائے اور سوال کرنے والا۔ کیسے بھولیں منصور و سرمد سامت و بلھے شاہ کو۔ عصری شعور کے ساتھ جینے اور سوال اٹھانے کا صلہ کیا ملا لیکن کیا پھر لوگوں نے سوال کرنا چھوڑ دیئے؟ جی نہیں۔ سوال ہی تو زندگی اور ہونے کی علامت ہیں دوسری صورت وہی ہے جو بلھے شاہ نے بتلائی۔ خراٹے مارتے ہوئے نیند پوری کرنے والے اٹھ یہ سونا تیرے لئے نہیں۔ یہ سوچ کہ اک دن سفر تمام ہونا ہے۔ رخصت لازم ہے۔ مٹی کی گود میں سمانا ہے۔ اس وقت سے پہلے زندہ رہنے کیلئے جو اہتمام کرنا ہے کرلے۔ یہ بھی شاہ نے ہی کہا تھا بہت سارا پڑھ لینے اور کتابوں کے ڈھیر لگا دینے سے اندھیروں کو روشنی میں نہیں تبدیل کیا جاسکتا۔ ان پڑھاکوں سے کوئی راہ کی بابت دریافت کرے تو تاویلیں پیش کرنے لگتے ہیں۔ عجیب لوگ ہیں الف میں چھپے بھید کو سمجھ نہیں پاتے اور ب پڑھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ اپنی بھوک مٹانے کے لئے سب کچھ کھا جانے پر مصر یہ تک نہیں سوچتے کہ بھوک تو ناچتی رہتی ہے۔ مردِآزاد عشق کے عین میں چھپے بھید پالینے والے ملامتی صوفیاکے سرخیل بلھے شاہ نے پھر کیا خوب کہا میں نے عشق کا گیت یاد کرلیا۔ نفس کا ہرن بس میں آگیا ہے۔ دنیا کے جھگڑے ختم ہوگئے ہیں۔ اب میں اسے کیوں ڈھونڈتا پھروں وہ تو میرے اندرہے میں نے اسے پالیا ہے۔ جستجو جو بھی کرے اسے پالیتا ہے شرط یہ ہے کہ ایک بار اندر جھانک کر دیکھ لیا جائے۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب حسین بن منصور حلاج نے اناالحق کی صدا دی۔ زنداں میں ماہ و سال بیتائے۔ الزام لگے جو جس کے منہ میں آیا وہ پھوٹا مگر منصور دمِ آخر تک اپنی بات پر قائم رہے اور بالآخر کہہ اٹھے مجھے ہلاک کرڈالو میرے دوستو کہ میری موت میں تمہاری حیات ہے۔
کب لوگ یہ سمجھ پائیں گے . "اسی ایک نے رہنا ہے تو پھر دوئی کیسی کیوں نہ اسی کی ابدی و ازلی حاکمیت کو تسلیم کرلیا جائے۔ دنیا تو ساعتوں کا کھیل ہے یا دلوں میں چھپا ہوا بھید بلھے شاہ۔ ہمارے چار اور کی حالت اب یہ ہے کہ جھٹ سے وہ بھی خدائی اختیارات سنبھال کر گردنیں مارنے کا حکم دینے لگتے ہیں جو اپنی تخلیق کا سبب نہیں جانتے۔ شاہ کہتے تھے بندے اور رب کے معاملے میں کوڑھ مغزوں کو نہیں آنا چاہیے۔ خیر تب ہوتی ہے جب ظرف کا پیالہ چھلکے نا۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ہرسو نفسانفسی کا دوردورہ ہے۔ تقلید کے اندھے جنون نے علم و جستجو سے بہت دور لاکھڑاکیاہے۔ چند درسی کتب اور ایک سند اور دعوے ڈھیروں۔ کون سمجھائے بندگانِ خدا کو درسی کتب علم سے تعارف کا ذریعہ ہیں بذات خود علم ہرگز نہیں۔ حسین بن منصور حلاج نے کہا تھا ہجر کی رات لمبی ہو خواہ چھوٹی اس میں میرے مونس تیری ہی امید اور یاد کے سوا کچھ کہاں۔ اگر میری فنا تیری رضا ہے تو میں اس پر راضی ہوں جو تیرا انتخاب ہے” ہاں اے فنا پر قدرت رکھنے والے میں اقرار کا نغمہ گاتے ہوئے میدان سے سولی تک کا سفر طے کروں گا۔ شہید سرمد نے کہا تھا میں نابود ہوگیا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ ہست کیا ہے۔ چنگاری بن گیا ہوں مگر دھوئیں سے واقف نہیں ہوں۔ میں نے دل دیا اور فقط دل ہی لیا۔ دل سے ایمان تک درمیان میں جو بھی کچھ تھا سب لٹا دیا۔ بیوپار تھا یہ کہ کچھ اور ہے۔ خسارے اور نفع کی پروا کسے ہے۔ طمع کے گھاٹ پر اترنے کی خواہش کو مار دینا بہت مشکل ہے۔ یہاں دہن کی لذت نے بڑوں بڑوں کو برباد کیا۔ نفس کے سرکش گھوڑے پر سواری اور لگامیں کھینچ کر رکھنا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ کیا ہی اچھا ہوکہ لوگ اس رازکو پالیں کہ جس نے اپنے نفس کو فتح کیا وہی زندہ رہا۔ یادوں اور کلام دونوں صورتوں میں۔ بہت مشکل ہے اپنے حصے کے نوالوں میں اسے شریک کرنا جس کے حصے کے نوالے وہ کھا گیا ہو ہائے مگر جس کی آنکھوں کی بھوک کسی بھی لمحے ختم نہیں ہوتی وہ کیسے کسی کو شریک کرے ۔
زندگی ایک بھوک نگر کی سی نگری ہے۔ اپنا سب کچھ کھا جانے والے پھر بھی بھوکے ہی رہ جاتے ہیں۔ حضرت مولوی لطف علی فرماتے ہیں بیدار مغزی سے یقین و ایقان کی حفاظت ہی کامیابیوں کی منزل تک لے جاتی ہے۔ غفلت میں خطرہ ہے خواری بھی اور ناکامی بھی ”
کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ سرمدی نغمہ الاپا جائے جو اس کے سوا کچھ نہیں۔ ہم اب بھی تیرے طالب ہیں۔ تجھے پالینا تو بڑی بات ہوگی ہم فقط دیدار کے متلاشی ہیں اے عزیزجاں! کبھی تو ایسا ہوکہ سارے پردے گرا دیئے جائیں اور خسارا اس کا مقدر ہو جو ہمارے بیچ آئے۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟