ڈالر پاکستانی روپیہ کے مقابلے میں مہنگاکیوں ؟

1947 میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا اس وقت ایک امریکی ڈالر کی قیمت پاکستانی روپوں میں تین روپے اکتیس پیسے تھا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ تفاوت بڑھتا گیا اور آج 315 سے زیادہ پاکستانی روپوں کے عوض ایک امریکی ڈالر مارکیٹ میں بمشکل مل پاتا ہے یہ فرق امریکی ڈالر کا دوسرے ممالک کی کرنسی کے ساتھ بھی ہے لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستانی کرنسی میں ان ممالک کی نسبت یہاں بہت زیادہ فرق آیا ہے ایک عشرے پہلے ہماری کرنسی خطے کے کئی ممالک سے بہت بہتر تھی لیکن گزشتہ چند برسوں میں جو فرق آیا ہے اس نے پاکستان کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے اس کی وجوہات کیا ہیں اس پر ماہرین کی مختلف آراء ہیں لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ پاکستان میں کمزور اور کرپٹ حکومتوں نے اس میں کلیدی کردار اداکیا پھر پاکستان میں خودکفالت کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا گزشتہ چار دہائیوں میں ہم افرادی قوت کی تعلیم اور صحت پر پیسے خرچ کرنے کے بجائے دیگر غیرضروری مدوں میں خرچ کرتے رہے ملک میں توانائی کی ضروتوں کو دستیاب ذرائع سے پورا کرنے کے بجائے ہم نے درآمدی تیل اور کوئلہ سے بجلی پر کثیر سرمایہ خرچ کرکے اپنا سرمایہ چند مفاد پرستوں کے حوالے کیا جس سے بجلی کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی اس لیے لوگوں نے کارخانے یا صنعتیں لگانے میں کم دلچسپی لی بھٹو نے ستر کی دہائی میں تمام صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی اختیار کی جس کے نتیجے میں ترقی کا پہیہ رک گیا تمام بڑے اداروں میں سیاسی رشوت کے طور پر غیر تربیت یافتہ سیاسی ورکروں کو لاکھوں کی تعداد میں بھرتی کیا گیا جس سے آمدن رک گئی اور وسائل کا الٹا زیاں ہونے لگا ضیا الحق کے دورمیں اور پھر مشرف کے دور میں امریکہ کی جنگ میں ساتھ دینے کی وجہ سے ملک میں امن عامہ کے مسائل بڑھ گئے تعلیم اور تربیت پر توجہ ختم ہوگئی جس کی وجہ سے ہم دوسروں کے مقابلے میں پیچھے رہ گئے ہم نے اپنے معدنی وسائل کا کوئی عملی استعمال نہیں کیا زراعت پر توجہ نہیں دی گئی جس سے ہم خوراک میں دوسرے ممالک کے رحم وکرم پر آگئے ملک میں مسلسل سیاسی عدم استحکام رہنے کی وجہ سے کرپٹ اور نااہل لوگوں کو اقتدار ملا جس سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی ، وقتی ضرورتوں کے تحت بنائی جانے والی سیاسی جماعتوں اور گروہوں نے اتنی طاقت پکڑ لی کہ پھر ان کو سنبھالنا مشکل ہوگیا افغان جنگ کے لیے افرادی قوت اور حمایت حاصل کرنے کے لیے بنیاد پرستی کو ہوا دی گئی جس سے ترقی کی جگہ ہم تنزلی کی طرف چلے گئے ملک میں یکساں نظام تعلیم اور ہر بندے کو بنیادی حقوق تک رسائی کااستحقاق میسر نہیں آیا ، ترقی کے لیے صرف پنجاب کو ترجیح دی گئی جس کے نتیجے میں باقی صوبے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے اور ان کے افراد روزگار کی تلاش میں کراچی اور مشرقی وسطی کا رخ کرنے لگے اور ان کے اپنے علاقے ترقی سے محروم رہ گئے خیبر پختونخوا اور اندرون سندھ جتنے کارخانے یا ملیں تھیں ان کو بند کردیا گیا خیبر پختونخوا سے ریلوے کے ذریعہ تجارت کو عملاً بند کردیا گیا جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلابوں نے لوگوں کی مالی مشکلات میں اضافہ کیا یہ ہماری کچھ داخلی وجوہات ہیں اس کے علاوہ یہاں افغان مہاجرین کو بسایا گیا جس سے لاقانونیت میں اضافہ ہوا اور ملکی وسائل پر بوجھ مزید بڑھ گیا یوں وہ توازن جو کسی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے وہ بگڑتا چلا گیاگزشتہ چند برسوں میں پاکستان نے جومحنت گزشتہ چالیس برسوںمیں امریکی مفادات کے حصول کے لیے کی تھی اس کے عوض جو ڈالر ملتے تھے وہ بھی ملنا بند ہوگئے یوں جو محنت ہم نے خودانحصاری کے بجائے امریکی خوشنودی کے لیے کی تھی وہ ضائع ہوگئی اور ہم دنیا سے چالیس برس پیچھے رہ گئے لیکن ہم نے ضروریات اور عادتیں البتہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق رکھے ہوئے ہیں ہماری آبادی میں دنیا میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ہورہا ہے ہمارے وسائل بہت تیزی کے ساتھ کم ہورہے ہیں خصوصاً خوراک کے وسائل جس کے لیے ہم بیرونی دنیا کے محتاج ہیں ہم تعلیم اور صحت پر خرچ کرنے کو پیسے کا زیاں سمجھتے ہیں اور ہمارے ہاں افسرشاہی کی مراعات امریکہ اور انگلستان سے چارسو گنا زیادہ ہیں ہم دنیا سے قرض لے لے کر ان کے لیے نئی نئی گاڑیاں خریدتے ہیں ان کی اہل و عیال کی عیاشی کے لیے نئے نئے ریسٹ ہاوسزاور گالف کلب کھول رہے ہیں پاکستان جو کھربوں ڈالر کا مقروض ہے اس کے سرکاری ملازمین اور سیاست دانوں کی لائف سٹائل کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اس کے ملازمین تنخواہوں کے علاوہ تین سو پچاس گنا زیادہ الاونس بھی لیتی ہے ساتھ میں گاڑیاں ملازم گارڈز فری ائیر ٹیکٹس مفت بجلی اور کہیں بھی جائیں تو اس کے بدلے ٹی اے ڈی اے یہاں تک کہ ان کے پاس تحفے دینے کے لیے بھی بجٹ موجود ہوتا ہے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی کارکردگی دیکھیں اور ان کی تنخواہیں اور مراعات دیکھیں اب یہ سوال کہ ڈالر کیوں مہنگا ہورہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ڈالر ایک کاروبار ہے گزشتہ حکومت میں موجود کچھ سرمایہ کاروں نے ڈالر جمع کیے اور پھر اچانک سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بڑھا دی یہ تجربہ کامیاب رہا اس لیے اس عمل کو درجنوں بار دہرایا گیا اور اپنے ایک کو ہزار اور ہزار کو لاکھ اور لاکھ کو کروڑ بنانے میں کامیاب ہوئے جب وہ ایسا کررہے تھے تو باقی کیسے پیچھے رہ سکتے تھے لوگوں نے مارکیٹ سے ڈالر اٹھا کر ان کے بدلے پلاٹ خریدلیے اور خریدرہے ہیں ہمارے عظیم نڈر حکمران نے ان کو مکمل ایمنسٹی دے دی تھی اور سودے سارے ڈالروں میں ہورہے تھے اور یہ ڈالر پھر افغان شہری جو پاکستان میں ہیں ان کی توسط سے بیرون ملک بھیجوائے جارہے تھے اور بھیجوائے جارہے ہیں اس لیے ڈالر روز بروز مہنگا ہورہا ہے پھر عملاً ملک کے نوجوانوں کے پاس کوئی کام نہیں ہے اس لیے وہ انٹر نیٹ پر بیٹھ کر کرپٹو کرنسی کا جوا کھیل رہے ہیں جس کے کے لیے عملاً ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے یوں کرپٹ ملازمین کے بچے جو پیسہ انہوں نے کرپشن میں کماکر گھر رکھے ہوئے تھے ان کو بلیک مارکیٹ سے ڈالروں میں بدل کر جوا کھیل رہے ہیں اور روزانہ کے حساب سے اربوں روپے ہار رہے ہیں یوں ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے پھر افغانستان میں خریداری کیلئے ڈالرز درکار ہیں پاکستان میں موجود افغان شہری یہاں سے ڈالر خرید کر روزانہ کی بنیاد پر افغانستان سمگل کررہے ہیں ، ایران سے سمگل شدہ تیل اور دیگر چیزوں کے بدلے بھی ڈالر ہی استعمال ہوتا ہے ، افغانستان کو ٹرانزٹ ٹریڈ پاکستان سے ہوکر جاتی ہے وہ پاکستانی ہی کررہے ہیں اس سمگلنگ کے لیے جسے ہم نے ٹرانزٹ ٹریڈ کا نام دیا ہوا ہے کے بدلے بھی ڈالر دئیے جاتے ہیں اور وہ مال بغیر کسٹم ڈیوٹی کے پاکستان میں آجاتا ہے ۔آن لائن خریداری کیلئے بھی ڈالرز کی ضرورت ہے جو مارکیٹ سے بلیک میں خرید کرلوگ عیاشی کے سامان منگواتے ہیں اس کے علاوہ لوگوں کو پتہ ہے کہ آج اگر ڈالر خرید کر رکھیں گے تو کل پیسے چار گنا ہوجائیں گے اس لیے محب وطن پاکستانی اپنے حرام و حلال پیسوں سے دھڑا دھڑ ڈالر خرید رہے ہیں اب جب اتنی ڈیمانڈ ہے تو پھر اس کی قیمت کیسے نہیں بڑھے گی اب تو سنا ہے کہ کچے کے ڈاکو بھی تاوان ڈالرز میں ہی مانگ رہے ہیں ہوسکتا ہے کل کو مزاروں پر نوٹس لگ جائے کہ نذرانے ڈالر ز میں دیں ویسے بھی شادیوں میں ہار بھی اب ڈالروں کے بن رہے ہیں ۔جب آپ تعلیم پر خرچ کرنے کی بجائے لوگوں کی عیاشیوں پر ملکی خزانہ خرچ کریں گے تو پھر ڈالرز لانے والوں کے بجائے مجروں میں ڈالر لٹانے والے پیدا ہوں گے ۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !