انتخابات ‘شکوک وشبہات کے چھٹتے بادل

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کا دورانیہ کم کر نے کا عمل انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار کرنے کی سنجیدہ سعی ہے جس سے شکوک و شبہات اور غیر یقینی کی فضا میں کمی آنا فطری امر ہو گا۔جاری حالات میں اس کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جارہی تھی خوش آئند امر یہ ہے کہ ایک اچھی ابتداء ہونے جارہی ہے جس سے انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار ہو گی یہ وہ ابتدائی و بنیادی کام تھا جس کے باعث انتخابات کے انعقاد بارے چہ میگوئیوں نے جنم لیاتھا اخباری اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کا عمل 30 نومبر تک مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی مشاورت اور فیڈ بیک کے بعد حلقہ بندیوں کا دورانیہ کم کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اب حلقہ بندیوں کی اشاعت 30 نومبر کو ہوگی، حلقہ بندیوں کا دورانیہ کم کرنے کا مقصد جلد الیکشن ممکن بنانا ہے، حلقہ بندیوں کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن شیڈول کا اعلان بھی کردیاجائے گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل حلقہ بندیوں کا دورانیہ 14 دسمبر رکھا گیاتھا۔دریںاثناء قومی و صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے لئے ڈیجیٹل مردم شماری کی روشنی میں نئی حلقہ بندیاں کرنے کیلئے تیاری شروع کردی گئی ہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے دسمبر میں انتخابی شیڈول کے اجراء اور فروری میں انتخابات کرانے کی منصوبہ بندی کے تحت پہلے مرحلے میں الیکشن کمیشن نے ڈپٹی کمشنرز ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز ریونیو سے ڈسٹرکٹ ایریاز کے کمپیوٹر ائزڈ نقشے طلب کئے تھے ذرائع کے مطابق پشاور ، چارسدہ ، نوشہرہ ،مردان ، ایبٹ آباد، کوہاٹ اور کئی دیگراضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز ریونیو نے نقشے فراہم کر دیئے ہیںجن نقشوں میں غلطیاں سامنے آ رہی ہیں انہیں درست کرنے کے لئے الیکشن کمیشن نے ڈپٹی کمشنرز کو نئی درستگی کی ہدایات بھی جاری کر دی ہے ذرائع نے بتایا کہ نئی حلقہ بندی کے ساتھ ووٹرز فہرست بھی ایک ساتھ اپ ڈیٹ کرنے کی کی منصو بہ بندی ہے ۔ان ساری سرگرمیوں اور تیاریوں کے بعد انتخابات کے انعقاد بارے اب کسی غیریقینی کی صورتحال نہیں رہنی چاہئے امر واقع یہ ہے کہ قبل ازیں گزشتہ حکومت کے دور ہی سے عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں یہاں تک کہ قومی سطح کے قائدین کی جانب سے بھی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کیاگیا گزشتہ حکومت ہی کے دوران نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات کے انعقاد پر صوبوں اور وفاق کے درمیان اجلاس میں اتفاق رائے کے بعد چھ ماہ کے دورانئے کا اندازہ لگایاگیاتھا نگران حکومت کی آمد کے بعد بھی معاملات بارے چہ میگوئیوں کا ازالہ نہ ہو سکا بہرحال بعد ازاں الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے سنجیدہ مشاورت شروع کی جس کے بعد تازہ صورتحال میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بداعتمادی کی فضا میں کمی آنا فطری امر ہو گا۔اگر ملک کی معاشی و سیاسی صورتحال میں انتخابات کے بعد بھی نمایاں بہتری آنے کی کسی توقع کا وثوق سے اظہار ممکن نہیں لیکن بہرحال عوام کی نمائندہ حکومت ہی عوامی مسائل کے حل میں اعتماد کے ساتھ فیصلہ اور کردار ادا کرسکتی ہے ملکی حالات کے تناظر میں اس امر کی ضرورت کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا پرامن طور پر انعقاد ہو اور حکومت سازی کا عمل بغیر کسی مداخلت کے طے پائے عوام جس بھی سیاسی جماعت کو چنیں ان کی رائے کا پورا پورا احترام کیاجائے اس سارے عمل میں الیکشن کمیشن کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے اس مقصد کے لئے الیکشن کمیشن کو ہر قسم کے اعتراضات اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کرنے کے مکمل اعتماد کی فضا پیدا کرنی ہو گی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے حالیہ ملاقاتیں اس سلسلے میں سنجیدہ امر ہے جس سے توقع کی جا سکتی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اپنی آراء میں الیکشن کمیشن کو شریک کیا ہو گا اور ان کے تحفظات پر بات ہوئی ہو گی اصولی طور پر ا لیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں میں اختلاف کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی اس کے باوجود بھی جو تحفظات ہوں اس پر بات چیت ہو جائے تو ان کو دور کرنا مشکل نہ ہو گا۔ الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری انتخابات کا انعقاد ہے جس کے لئے تیاری کرتے ہوئے اگر دو تین ماہ کی مدت اگر اضافی بھی درکار ہو اور آئین میں اس کی گنجائش نکلتی ہو تو بھی غلط فہمیوں سے بچنے کے لئے اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیاجائے تو تضادات کی نوبت نہیں آئے گی۔ الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کی سرگرمیوں اور ذمہ داریوں کی عملی طور پر ادائیگی کا آغاز کرے تو شکوک و شبہات میں کمی آنا فطری امر ہوگااور انتخابی فضا پیدا ہو گی جس کے بعد سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکنان کی ساری توجہ الیکشن لڑنے کی طرف مرکوز ہوگی۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟