آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کا آڈٹ

ملک میں بجلی لوڈشیڈنگ قیمتوں میں مسلسل اضافے اور اس سے جڑے دیگر مسائل کے حوالے سے آئی پی پیز کے ساتھ ہوئے معاہدوں پر شروع ہی سے سوال اٹھائے جاتے رہے ہیںمگر مسئلہ اس قدر سنگین رخ اختیار کرنے کے باوجود اس سے گلو خلاصی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ اب ایک بار پھر ان معاہدوں کے آڈٹ کے حوالے سے قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو نے سوال اٹھایا ہے جسے آسانی کے ساتھ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صوابی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آفتاب شیرپائو نے کہا ہے کہ پاور سیکٹر کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن لاسز 520 ارب روپے ہیں مالی سال 2020-21 کے دوران پیسکو کے لائن لاسز 153.8 بلین روپے تک پہنچ گئے تھے۔ حکومت کو ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن سسٹم سے متعلق مسائل کو حل کرنے کیلئے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ لائن لاسز پر قابو پانے کیلئے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کرنا چاہئے۔ امر واقع یہ ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرتے وقت اس دور کی حکومت نے ملکی مفاد کو مقدم رکھنے کے بجائے آئی پی پیز کے مفادات کو مقدم رکھا اور ایسی شرائط قوم پر مسلط کیں جن کی وجہ سے واپڈا کا سارا نظام نقصان سے دوچار ہوگیا۔ اس ضمن میں مبینہ طورپر شرائط میں اس بات کا ”اہتمام” کیا گیا کہ آئی پی پیز کے زیر انتظام چلنے والے گرڈ سٹیشنوں سے مقررہ قوت کے مطابق بجلی پوری یا کم فراہم ہونے کے باوجود ادائیگی پوری کرنی پڑے گی جبکہ گرڈ سٹیشنوں کو چالو رکھنے کیلئے فیول حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ اس صورت میں اگر کسی وجہ سے حکومت فیول فراہم کرنے پر ضرورت کے مطابق فراہم کرنے میں ناکام رہے تو آئی پی پیز اپنا پورا معاوضہ وصول کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اس قسم کی اور بھی شرطیں ہیں جو ملکی اور قومی مفاد کے خلاف اور آئی پی پیز کے مفاد میں ہیں جبکہ اس سلسلے میں آڈٹ کی ضرورت سے بھی پہلو تہی کی گئی اس کی وجہ سے نہ صرف بجلی کی پیداوار معاہدے کے مطابق نہیں ہری اور ملک میں لوڈشیڈنگ کی صورتحال خراب ہوتی رہی بلکہ کم مقدار میں بجلی نہ صرف ملکی ضرورت پوری کرنے کے قابل نہیں رہی بلکہ اس پر اٹھنے والے اخراجات زیادہ اور آمدن کم ہونے کی صورتحال اربوں کے نقصان پر منتج رہی اور بجلی مہنگی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا جس نے آج ایک گھمبیر صورت اختیار کرلی ہے۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے