حجرہ اسود

حجر اسود کا ذکر اور اس کا بیان متعدد احادیث میں آیا ہے، ترمذی شریف کی روایت ہے کہ حجر اسود جنت سے اترا تھا تو دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا، پھر بنی آدم کی خطاوٴں نے اس کو کالا کردیا۔ ترمذی شریف، حدیث:۸۷۷۔
دوسری حدیث جس کو بیہقی نے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ حجر اسود جنت کے پتھروں میں سے ہے۔ (ج۵ ص۷۵)
تیسری روایت مصنف ابن عبدالرزاق، ابن حبان اور خزیمہ کی ہے کہ بلاشبہ حجر اسود اور مقام ابراہیم دونوں جنت کے یاقوت ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے نور کو مٹادیا، اگر ان کا نور مٹایا نہ جاتا تو اس سے مشرق و مغرب میں روشنی پھیل جاتی۔
چوتھی روایت صحیحین میں ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا تو فرمایا: کہ میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے جو کسی کو نفع نقصان پہنچانے کا مالک نہیں ہے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جاہلیت کے عقیدہ یعنی پتھر کو نافع و ضار سمجھنے کے عقیدہ کی تردید فرمائی ہے۔ پانچویں روایت میں ہے کہ رکن اسود، اللہ کا یمین ہے، وہ اللہ کے بندوں سے مصافحہ کرتا ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مصافحہ کرتا ہے۔ چھٹی روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پتھر کو قیامت کے دن اٹھائیں گے جس کے دو آنکھیں ہوں گی وہ ان سے دیکھے گا۔ اور زبان ہوگی جس سے بولے گا، جس نے حق کے ساتھ اس کا استلام کیا ہوگا، حجر اسود اس کی گواہی دے گا۔ مشیر الغروم الساکن إلی أشرف الأماکن: ص۱۴۶۔
حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کی کتاب مقامات مقدسہ میں بھی بعض تفصیلات ہیں۔

مزید پڑھیں:  پوتے کو دادا کی میراث سے حصہ کیوں نہیں ملتا؟
مزید پڑھیں:  پوتے کو دادا کی میراث سے حصہ کیوں نہیں ملتا؟

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند