پاکستان کیوں ضروری تھا

اس بات کا جواب اتنا سیدھا اور سادہ نہیں ہے کہ پاکستان کا بننا کیوں ضروری تھا، نہ صرف بے شمار تاریخی حقائق اور اس وقت کی صورت حال قیام پاکستان کی متقاضی تھی بلکہ بعد میں مسلسل رونما ہونے والے کئی واقعات اور زمینی حقائق نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ پاکستان کا قیام ناگزیر تھا، پاکستان دو قومی نظریئے کی پیداوار ہے جو ایک اٹل حقیقت بن کر سامنے آیا اورکسی کے لئے بھی اس کو جھٹلانا ممکن نہیں، مسلمان اور ہندو کبھی ایک نہ تھے اور نہ کبھی ایک نہیں ہو سکتے تھے، ان کا مذہب ، ان کی ثقافت، ان کی زبانیں اور رہن سہن ایک دوسرے سے مختلف تھے، اگرچہ انگریز کے آنے سے پہلے دونوں ایک ساتھ مل جل کر رہ رہے تھے لیکن بعد کے حالات وواقعات نے ثابت کیا کہ انگریز اور ہندو دونوں مل کر مسلمانوں کو اقلیت بنانے پر مصر تھے کہ جنہیں صرف بنیادی حقوق دے کر خاموش کروا دیا جائے اور اس کے علاوہ ان کی کوئی بھی حیثیت نہ ہو، مسلمان اور ہندو جب اکھٹے رہ رہے تھے اس وقت بھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ شادی نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی ایک تھالی میں کھاسکتے ہیں، گائے کا پیشاب پینے والے ہیں، سور کا گوشت کھانے والے، مورتیوں، ستاروں، سورج، درختوں،سانپوں، چوہوں، گائے، سور وغیرہ کی پوجا کرنے والے اور ایک رب کو ماننے والے زیادہ عرصے تک ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے، وہ معاشرہ کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتا جس میں ایک جانب تمام انسان برابر ہوں اور دوسری جانب ذات پات کی ایسی تقسیم ہو کہ جس کی مثال نہ ملے، مشکل ترین حالات میں نصرتِ خداوندی کے بغیر پاکستان کا قیام ناممکن تھا اور پاکستان کا قائم ہونا کسی معجزے سے کم نہیں، قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ جو لوگ آزادی کے بعد پاکستان جانے کی بجائے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں وہ اپنی ساری زندگی یہ ثابت کرنے میں گزار دیں گے کہ وہ ہندوستان کے وفادار ہیں، آج ہم خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے، آج تک وہاں مسلمان خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، قیام پاکستان سے لے کر اب تک مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ نفرت کی مہم جاری ہے، مسلمانوں کا قتل عام اور ان کو زدوکوب کرنا بالکل عام سے بات ہے، اور ایسے واقعات کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے، یہ سب ایک طرف لیکن میں آج ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی مذہبی سماجی حالت کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں، پڑھتے جائیں اور اس عظیم نعمت پاکستان پر اپنے رب کا شکر ادا کرتے جائیں، معروف بھارتی مسلمان نغمہ نگار، فلم لکھاری اور شاعر جاوید اختر نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے دونوں بچے مذہبی طور پر ملحد ہیں جب کہ ان کی اولاد نے اپنے بچوں کے شناختی دستاویزات میں لکھا ہے کہ ان پر مذہب کا اطلاق نہیں ہوتا، بولی وڈ اداکار اور فلم ساز فرحان اختر اور زویا اختر ان کے بچے ہیں جو انہیں پہلی اہلیہ ہنی ایرانی سے ہیں جب کہ فرحان اختر شادی شدہ اور دو بیٹیوں کے والد ہیں، فرحان اختر نے بھی والد کی طرح دو شادیاں کیں، ان کی پہلی شادی بھی والد کی طرح طلاق پر ختم ہوئی، ان کی پہلی اہلیہ ادھونا ہندو مذہب کی پیروکار تھیں جب کہ انہوں نے دوسری شادی شبانی ڈنڈیکر سے کی ہے، فرحان اختر کو پہلی اہلیہ سے دو بیٹیاں شاکیا اور آکیا ہیں جو اس وقت یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، جاوید اختر نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ انہیں فخر ہے کہ ان کی اولاد ان کے ورثے کو آگے بڑھاتے ہوئے سیکولرازم کے راستے پر چل رہی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرحان اختر نے اپنی بیٹیوں کے شناختی دستاویزات میں مذہب کے خانے میں ‘اطلاق نہیں ہوتا’ درج کروا رکھا ہے، یہ اپنی نوعیت کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں متعدد مسلمان شخصیات نے ہندو مذہب کی پیروکار شخصیات سے شادیاں رچا رکھی ہیں جب کہ ایسے جوڑوں کی اولاد کی مذہبی شناخت ہمیشہ بحث کا موضوع بھی رہتی ہے، اسی طرح بھارتی اداکار سیف علی خان نے ہندو عورت کرینہ کپور سے شادی کی، سیف علی خان کی ہندو اہلیہ کا کہنا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اس سے فرق کیوں پڑتا ہے کہ سیف علی خان کا مذہب کیا ہے ، ان کے بھی دو بچے ہیں، انہوں نے اپنے پہلے بیٹے کا نام تیمور خان رکھا جس پر بہت تنقید کی گئی تھی کہ یہ نام ایک مسلمان بادشاہ کا بھی تھا، دوسرے بیٹے کے بارے میں بھارتی میڈیا نے ذرائع سے بتایا تھا کہ جوڑے نے تنقید سے بچنے کیلئے دوسرے بیٹے کا نام جے رکھا ہے، کرینہ کپور نے اس بات کا انکشاف بھی کیا تھا کہ وہ سیف علی خان کے ساتھ بغیر شادی کئے پانچ سال تک رہتی رہی ہیں اور جب ان دونوں کو بچوں کی خواہش ہوئی تو انہیں شادی کرنا پڑی، اسی طرح حال ہی میں بھارتی مسلمان فلمی اداکار عامر خان نے اپنی بیٹی ارا خان کی شادی اس کے ہندو دوست نوپور شیکھرے کے ساتھ کردی، اس سے پہلے عامر خان نے خود پہلے رینا دت اور پھر کرن راؤ نامی ہندو خواتین سے شادی کی، سوال یہ ہے کہ کیا اگر یہ سب مسلمان پاکستان میں ہوتے تو کیا پھر بھی یہ اسی طرح نکاح کے اہم معاملے میں ہندو مسلمان کے فرق کا لحاظ نہ رکھتے، پاکستان میں بھی تو ہندو رہتے ہیں لیکن یہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا، قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کیلئے رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے سلسلہ میں جو احکامات نازل فرمائے ہیں، ان میں رشتہ کرنے کی شرائط میں سے پہلی شرط اسلام بیان فرمائی ہے، مسلمان مردوں پر کافر خواتین کو اور مسلمان عورتوں پر کافر مردوں کو حرام قرار دیاہے، ان کے درمیان باہمی نکاح کو بھی حرام قرار کردیا ہے، ارشاد ربانی ہے کہ نہ وہ (مسلمان عورتیں) ان (کافر مردوں) کیلئے حلال ہیں، اور نہ ہی وہ (کافر) ان (مسلمان عورتوں) کیلئے حلال ہیں،(الممتحنہ)،یعنی یہ بالکل واضح ہے کہ کسی مسلمان مرد اور عورت کا نکاح کسی ہندو مرد یا عورت سے شرعا ً جائز نہیں اور اگر نکاح کربھی لیا تو ایسا نکاح شرعاً درست نہیں ہوگا اور یہ کبیرہ گناہ تصور ہو گا،پاکستان کا قیام بہت سی اور وجوہات کی بنا پر بھی ضروری تھا لیکن اس نے نہ صرف ہمیں مکمل مذہبی آزادی دی بلکہ ہمارے مذہب کی حفاظت بھی کی، جن والدین نے اپنے بچوں کی شادیاں ہنددؤں کے ساتھ کی ہیں ان کے اپنے والدین ان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ دینی اقدار اور احکامات کے پابند ہوں گے، یہ لوگ خود بھی کسی نہ کسی حد تک دین دار ہوں گے لیکن ان کے بچے اور اس کے بعد آنے والی نسل کا کیا عالم ہو گا کہ جس کے والدین میں سے ایک مسلمان اور دوسرا ہندو ہیں، وطن عزیز پاکستان کی اس عظیم نعمت پر ہم اللہ پاک کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے، ہاں اس کی یہ حالت کر کے ہم نے جو کفران نعمت کیا ہے وہ بھی کسی سے اوجھل نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:  آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت