آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت

صدرمملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ9مئی کو پاکستان کی تاریخ میں یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا،9مئی کو تشدد کے ذمہ داران کو قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ9 مئی کے واقعات سے ملک کا تاثر بری طرح متاثر ہوا اور پرتشدد واقعات سے صرف پاکستان کے دشمنوں کے مفادات پورے ہوئے، حملے ریاستی رٹ ، قانون کی حکمرانی اور اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش تھے۔دوسری جانب وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ9مئی محض تاریخ کا ایک سیاہ دن نہیں ہے۔9مئی کا دن ریاست پر سیاست قربان کرنے اور سیاست کیلئے ریاست پر حملہ کردینے والی دو سوچوں کو الگ الگ کر دینے والا دن ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 9مئی کے حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پیغام میں کہا کہ ایک طرف وطن پر لہو نچھاور کرنے والے قوم کے عظیم بیٹے، ان کے عظیم اہل خانہ، محب وطن عوام ہیں، دوسری طرف نفرت کی آگ میں سلگتے وہ کردار ہیں جن کے دل میں ریاستی مفادات کا کوئی درد نہیں۔ شہبازشریف نے کہا کہ ان کی آنکھ میں قومی یادگاروں، ریاستی اداروں، آئین، قانون کیلئے کوئی عزت وشرافت نہیں، ایک سال گزر گیا لیکن قوم اور پاکستان اپنے مجرموں کو نہ بھولے ہیں نہ بھولیں گے۔ادھر اپوزیشن اتحاد تحفظ آئین پاکستان اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ مارشل لاء لگانے والے پہلے معافی مانگ لیں پھر میں نو مئی والوں سے بھی کہہ دوں گا تو وہ بھی معافی مانگ لیں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ملک میں صرف نو مئی پہلا برا کام ہوا۔نو مئی کے واقعات ملکی تاریخ کا افسوسناک باب ضرور ہیں لیکن اس امر کی بھی گنجائش نہیں کہ اس دن کو ملکی تاریخ میں ایک دن کے طور پر دہرا کر باربار ان تکلیف دہ واقعات کی منصوبہ بندیاددہانی کرائی جائے، اس دن کے سبق سیکھنے کی حد تک تذکرہ ضرور ہونا چاہئے اور آئندہ اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہونے کیلئے اس کے کردار و عوامل کے احتساب کی بھی ضرورت ہے، سال گزرنے کے بعد تک اس میں ملوث عناصر کے خلاف آئین و دستور اور قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ذمہ داران کا تعین اور ملوث عناصر کا احتساب نہ ہونا لمحہ فکریہ اور نظام میں کمزوریوں کی طرف اشارہ ہے، بجائے ان عوامل پر توجہ دینے اور اس ضمن میں اقدامات کے اس دن کو ملکی سیاست میں ایک سیاہ باب کی صورت دے کر درپردہ سیاسی مقاصد کیلئے اس کا استعمال بالکل بھی مناسب امر نہیں، اس کا واحد راستہ قانون کا راستہ اور قانون کے مطابق اقدامات اور انصاف کے تقاضوں کا پورا کرنا ہونا چاہئے ،ایسا کرکے ہی اس بارے کھلنے والے باب کی بندش کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ،یہ ضرور ہے کہ یہ ایک پیچیدہ امر اور صورتحال ایسی ہے کہ اس اونٹ کو کسی کروٹ لٹائے بغیر ان واقعات کاتذکرہ و تکرار سنائی دیتی رہے گی اور جب تک ایسا ہوتا رہے گا تب تک زخم ہرے ہی رہیں گے، مشکل امر یہ ہے 9مئی 2023کے واقعات کے بعد سے ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی سیاسی نقطہ نظر سے بہت کم تبدیلی آئی ہے۔پی ٹی آئی اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی تنائو کی کیفیت میں کمی نہیں آئی ،دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف اپنائے گئے موقف پر نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں۔ فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی معافی مانگے ،جواب میں، پی ٹی آئی نے بیان کو”تضادات سے بھرا ہوا”قرار دے کر مسترد کیا ۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گزشتہ سال اس دن ملک کے کئی حصوں میں فوجی نشانوں اور تنصیبات پر جو تشدد ہوا، وہ پی ٹی آئی کی جانب سے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد بنائے گئے بیانیے کا براہ راست نتیجہ تھا۔پارٹی نے اپنے سربراہ کی گرفتاری کے امکان کو ایک ”سرخ لکیر”کے طور پر تیار کرنے میں مہینوں گزارے تھے ،پی ٹی آئی کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے حامیوں کو ایسے ناقابل قبول ردعمل کی طرف لے کر انتہائی غیر ذمہ دارانہ کردار کا مظاہرہ کیا،ریاست کی طرف سے انتقامی کارروائیوں میں ہزاروں افراد کو نشانہ بنایا گیا۔صدر مملکت اور وزیر اعظم کے اس حوالے سے بیانات مصلحت سے عاری اور کسی حد تک سیاست زدہ ہیں، خاص طور پر بطور صدرمملکت کو اس ضمن میں ایسا کردار ادا کرنے کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا کہ محولہ واقعات کے بعد المشرقین کے حامل کرداروں اور فریقوں کو ملکی مفاد اور استحکام کی خاطر قابل قبول رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے اور اس باب کو بند کرنے کے حامل ممکنہ اقدامات کی طرف اشارہ کرتے۔یہاں دونوںفریق تن کے کھڑے ہیں اور قانون کا راستہ بھی دھندلاہے، ایسے میں تنائو کی کیفیت کا برقرار رہنا فطری امر ہے ۔ جس کے ملک پر اثرات سے صرف نظر کی گنجائش نہیں ،پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کی بنیادی وجہ پی ٹی آئی اور عسکری محاذ آرائی ہے۔ چونکہ کوئی بھی فریق کسی قرارداد میں دلچسپی نہیں رکھتا، اس لئے شاید حکومت کو قدم اٹھانا چاہیے۔ وہ 9مئی کے مقدمات کو سویلین عدالتوں میں چلانے کیلئے اپنے بہترین وسائل پیش کر سکتی ہے، اس طرح ایک شفاف عدالتی عمل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔منصفانہ طریقے سے کیا گیااختیار کردہ عمل دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کیساتھ براہ راست الجھنے سے روک دے گا۔ ضروری ہے کہ اس باب کو تسلی بخش طریقے سے بند کیا جائے تاکہ قوم آگے بڑھ سکے۔

مزید پڑھیں:  سہولت ، زحمت نہ بن جائے !