رام مندر!!! تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھوم رہا ہے؟

بھارت کے شہر ایودھیا میں رام مندر کی مکمل تعمیر سے پہلے ہی نریندر مودی نے افتتاحی تقریب منعقد کر ڈالی اور یہ تقریب ایک میلے اور تہوار کے انداز میں ہوئی جس کے لئے تیاریاں مہینوں سے جا ری تھیں ۔ملک کے کونے کونے سے لوگ رام کو ایودھیا واپس لانے کے تصور اورنعرے کے تحت اس مقام پر کھینچے چلے آتے تھے ۔بائیس جنوری کو مندر کے افتتاح کی تقریب کے موقع پر بھارتیہ جنتاپارٹی کے اقتدار کی حامل ریاستوں میں تعطیل کر دی گئی اور ملک بھر سے آٹھ ہزار معروف مہمان اس تقریب میں شریک ہوئے جن میں بھارتی فلم اسٹار امیتابھ بچن بھی شریک تھے ۔رام مندر کی افتتاحی تقریب میں نریندر مودی ہی شمع ِمحفل تھے اور ان کے ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی ہمنوا کے طور پر موجود تھے ۔مسجد سے باہر انتہاپسندوں کی ایک ٹولی مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر کا مجسمہ جلا کر تاریخ سے اپنی نفرت کا اظہا رکر رہے تھے ۔بتیس سال قبل بھارت کے انتہا پسندوں نے ایک مسجد کو گرانے یا ایک مندر کی تعمیر کا ہدف طے نہیں کیا تھا بلکہ یہ بھارت میں تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھمانے کا عمل تھا یہ نئے بھارت کا سنگِ بنیاد تھا ۔مسلمانوں کے صدیوں کے اقتدار کے اثرات سے بھارت کو نکال کر اس سے پرانے بھارت کا احیاکا عمل اور ہدف تھا ۔بابری مسجد اس سارے عمل میں ایک علامت کے طور استعمال ہوئی تھی ۔اس مسجد کا ملبہ ایک تہذیب کے زمیں بوس کئے جانے کا اعلان واظہار تھا اور اس کی جگہ مندر کی تعمیر حقیقت میں ایک تہذیب کے ملبے پر ایک نئی تہذیت کی پرشکوہ عمارت کی تعمیر تھا ۔اس عمل میں بھارت کے انتہا پسندوں کو برسوں لگے تھے ۔انہوںنے مدت تک بھارت میں کانگریس کے پلورل ازم کے نعروں کی اوٹ میں اپنا سفر جا ری رکھا۔کانگریس کا تعلق نہ ہندوستان کے مسلمان اقتدار سے تھا نہ وہ ہندو وں کے اصل کلچر کی علامت تھی ۔یہ انگریز راج کے زیر پیدا ہونے والے سیاسی رجحانات کی پیدوار اور انگریزوں کے تصور تکثیریت کا سیاسی جنم تھا جس میں جدید مغربی جمہوریت کے اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا تھا ۔ووٹ کی طاقت میں ایک توازن پیدا کر کے سوسائٹی کو کسی نہ کسی طرح جوڑے رکھا جائے ۔اس ذہنیت کو بھارت کے ایک لبرل مسلمان محمد علی جناح نے بھانپ لیا تھا ۔محمد علی جناح کانگریس کی سیکولر اور جدید ذہنیت کے ہم راز اور ساتھی تھے مگر وہ جان گئے تھے کہ انگریز کے اثرات کے تحت قائم ہونے والی کانگریس چند دہائیوں تک تو شاید ملک کو سیکولر اور جمہوری رکھ سکے گی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سوچ کے تاروپود بکھر تے جائیں گے اور اس کی جگہ ہندو غلبے کی سوچ غالب آتی جائے گی۔
اب جب رام مندر کا دھوم دھام سے افتتاح ہو رہا تھا تو معروف دانشور اور سیاسی مفکرپروفیسر اشوک سوئین کہہ رہے تھے کہ نریندرمودی نے گاندھی کو غلط اور جناح کو صحیح ثابت کر دیا ۔کئی دہائیوں تک کانگریس اور اینٹی کانگریس کی سیاست میں بھارت کے انتہا پسند بہت خاموشی کے ساتھ اپنے طے کردہ ایجنڈے پر گامزن رہے اور جب ان کی سوچ وفکر نے بھارت کے عام آدمی کے ذہن میں گہری جڑیں پکڑ لیں تو انہوںنے بابری مسجد کو نشانے پر رکھ لیا ۔اسی کی دہائی میں مسجد کے اندر مورتیاں رکھ کر تنازعات کو گہرا کیا جانے لگا یہاں تک بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی پہلی منظم اُڑان اور اُٹھان کے لئے بابری مسجد کی شہادت کا انتخاب کیا ۔اس وقت تک بھارت کے مسلمانوں میں مزاحمت کا دم خم بھی تھا اور کانگریس اور مسلم سیاسی اور انتخابی جماعتوں کی صورت میں انہیں کچھ نہ کچھ سیاسی اور عوامی سپیس بھی حاصل تھی جو بعد میں رفتہ رفتہ کم ہو کر سکڑتی چلی گئی ۔بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر مسلمانوں کا قتل عام ان کی سیاسی کمر توڑنے کا پہلا مرحلہ ثابت ہوا۔ بھارت کے مسلمان اس جھٹکے سے دوبارہ سنبھل نہ سکے ۔انہوں نے آخری امید کے طورپرعدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایامگر عدالتوں کے آگے ”انتظار ” کا بورڈ ان کا منہ چڑاتا رہا اور یہ انتظار تین عشروں پر محیط ہوگیا ۔تین عشرے بعد عدالت نے جو فیصلہ دیا اس میں مسلمانوں کے لئے کچھ بھی نہیں تھا ۔یوں لگتا تھا کہ عدالت نے برسوں مسلمانوں کی سیاسی طاقت اور احتجاج کی صلاحیت کے کمزور اورجذبات کے ٹھنڈا پڑنے کا انتظار کیا۔2020میںلکھنو کی عدالت نے بابری مسجد شہادت کیس کا فیصلہ اٹھائیس سال بعد دھوم دھڑکے سے سنایاتھاجس میںبابری مسجد کی شہادت کے بتیس ملزمان کو بریت کی کلین چٹ دے دی گئی تھی ۔ اسی پر طنز کرتے ہوئے لوگوں نے کہا تھا کہ شاید بابری مسجد ہوا کے جھونکے سے گر کر شہید ہوئی ہو ۔شاید اپنے بوجھ تلے دب کر رہ ہوگئی ہویا کسی اور پراسرار مخلوق نے اس صفحہ ہستی سے مٹادیا ہو۔ اس فیصلے میں ایک تو انصاف میں تاخیر ہوئی تھی اورتاخیر بھی ایسی نہ کوئی مجرم ٹھہرا نہ کسی سازش اور منصوبہ بندی کے نشان ملے جو فیصلہ پہلے دومنٹ میں ہی سنایا جا سکتا تھا اس میں اٹھائیس برس لگ گئے ۔کچھ کے مرنے کا انتظار کیا کچھ کے بوڑھا اور نحیف ونزار ہونے کا انتظار کیا گیا ۔یوں بھارت کی عدلیہ نے بتیس سال پر محیط بابری مسجد کیس میں ہندو توا سوچ کے لئے سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔ کشمیری راہنما محمد افضل گورو کی سزائے موت کے فیصلے سے بھارتی عدالتوں نے عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کے نام پر انصاف سے فرار کا راستہ ہی تلاش نہیں کیا بلکہ اکثریت پسند ی کے آگے سپر ڈالنے کا ایک رجحان بھی پروان چڑھایا ۔یہ رجحان بابری مسجد کے کیس کے فیصلے میں بھی پوری طرح بولتا رہا گویا کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو گرا کر تو نہیں ہوئی تھی مگر اس کی جگہ مندر کی تعمیر میں کوئی ہرج نہیں ۔اس لئے کہ بھارت کی اکثریت کی خواہش یہی ہے اور اس کے بعد حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ نے چار سال کے انتظار کے بعد کشمیر کی خصوصی شناخت کے مقدمے میں یہی رجحان برقرار رکھا ۔
بھارت کے انتہا پسند مسلمانوں کی سیاسی اور تہذیبی سپیس کم کرتے جا رہے ہیں توکسی دور میں آزاد اور تاریخی فیصلوں کی حامل عدلیہ اس عمل کو قانونی جواز دے کر اکثریت پسندی پر مہر تصدیق ثبت کر تی جا رہی ہے ۔بابری مسجد کی شہادت سے تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھمانے کا جو عمل شروع ہوا تھا بتیس برس بعد رام مندر کے افتتاح اور رام کی مورتی کی نقاب کشائی سے وہ پہیہ پوری طرح گھوم گیا ہے ۔اگلے چند ماہ میں بھارت میں انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے ۔نریندرمودی اپنی تیسری فتح کی دہلیز پر کھڑے ہیں وہ مسلمان ووٹر کو غیر موثر کرکے ہندو ووٹر میں بالادستی اور عظمت رفتہ کی بحالی کی آگ پوری طرح بھڑکا چکے ہیں ۔نریندرمودی کے لئے انتخابی مہم کو چلانے کے لئے تین نکات ہوا کرتے تھے جن میں پہلا پاکستان دوسرا گائو رکھشا یعنی گائے کا تقدس اور حفاظت اور تیسرا بھارتی مسلمان تھے ۔بھارت میں گائے کو تقدس اور عظمت کا وہ مقام حاصل ہو چکا ہے جس کے لئے اب مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی صورت انسان بھی رشک کرنے لگتے ہیں ۔مسلمانوں کو شہریت قوانین کے ذریعے ڈرا دھمکا کر دیوار سے لگایا جا چکا ہے اور پاکستان کے بارے میں نریندرمودی کا دعویٰ ہے کہ خود اپنے بوجھ تلے دب رہا ہے ۔لے دے کرہندوستان پر صدیوں کے مسلم راج کے اثرات کو کھرچ کر رام مندر کے نام پر ہندوئوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کی نقش نگاری ہی ایک انتخابی کارڈ کے طور پر باقی رہ گیا تھا جسے انہوںنے رام مندر کے دھوم دھام سے افتتاح کے ذریعے پھینک دیا ۔نریندر مودی نے اس موقع کو ایک سیکولر انتخابی مہم کی بجائے ہندئووں کی عظمت رفتہ کی بحالی اور تاریخ کا قرض چکانے کا رنگ دیا اور اس کا عکاس ان کا بولاجانے والا یہ جملہ ہے کہ ملک صدیوں کی غلامی سے باہر آگیا ہے۔سیدھے لفظوں میں یہ ایک مندر اور مسجد کا معاملہ نہیں بلکہ تاریخ اور تہذیب کے ایک عہد کو جھٹکنے اور کھرچنے کا عمل ہے ۔ بابری مسجد کے بعد ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر مسلمان تہذیب اور دور کی بہت سی توانا علامتیں ہیں ۔ان میں متھرا کی تاریخی مسجد بھی شامل ہے ۔انتہاپسندوں کا یہ سفر بابری مسجد پر ختم نہیں ہوا بلکہ بھارت بھر کی سیکڑوں مساجد ،درگاہیں قبرستان اور تاج محل جیسی تاریخی عمارت انتہا پسندوں کے نشانے پر ہیں اور نریندر مودی نے اس اصل ہدف کو اپنی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہونے دیا اور رام مندر کی افتتاحی تقریب میں نریندر مودی کا اپنی تقریر میں اس ساری مشق کو تاریخ سے جوڑنا بھی اس کا ثبوت ہے۔

مزید پڑھیں:  فلسطینی عوام کیلئے ایک تاریخی دن