صرف واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز مسئلے کا حل نہیں

خیبرپختونخوا میں عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے سلسلے میں واٹر ٹیسٹنگ موبائل لیبارٹریزمیں پانی کی جانچ کی ضرورت مدت سے تھی جو یو این آفس فار پراجیکٹ سروسز نے کوریا انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کے تعاون سے ” واٹر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم کی استعداد میں اضافہ اوردیر پا ترقیاتی اہداف کے حصول ” کے منصوبہ کے تحت 8عدد واٹر ٹیسٹنگ موبائل لیبارٹریز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے حوالے کرنے سے پوری ہونے کی توقع ہے۔ منصوبے کا مقصد واٹر کوالٹی ٹیسٹنگ کی استعداد میں اضافہ کے ذریعے پینے کے صاف پانی کی کمی کو دور کرنا ہے ۔ صوبائی حکومت کو موصول ہونے والی موبائل لیبارٹریز صوبے کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں پانی کے معیار کی جانچ کے لئے بروئے کار لائی جائے گی۔پینے کے صاف پانی کی کمی اورآ لودہ پانی کے استعمال کی شکایات خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں سب سے زیادہ ہے یہاں تک کہ حیات آباد میں بھی پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں دیگر نشیبی اور گنجان علاقوں میں جہاں نکاسی آب کا زمین دوز نظام ہی موجود نہیں اورکھلی نالیاں ہوں جس کے قریب سے رسنے والی بوسیدہ اور زنگ آلود پائپ سے پانی کی سپلائی ہو رہی ہو تواس کی آلودگی کی کیفیت کا ا ندازہ ہی کیا جا سکتا ہے ۔ صوبائی دارالحکومت میںپانی کے زنگ آلود پائپوں کی تبدیلی اورآ بادی کو ورسک ڈیم سے پانی لانے کا اعلان شدہ منصوبہ ہنوز عملدرآمد کا متقاضی ہے شہروں اور مضافات میں جہاں بور کا پانی استعمال ہوتا ہے وہاں اگرچہ اب پانی کی سطح مسلسل نیچے جارہی ہے اس کے باوجود بعض مقامات پر کم گہرائی سے پانی نکالا جاتا ہے جس کا مصفا ہونے کا امکان کم ہی ہوتاہے اس طرح کی صورتحال صوبے کے دیگر بڑے اور گنجان شہروں و قصبات میں بھی ہے اب تو دریا کے کنارے اور دریا بھی نکاسی آب ہوٹلوں سے آنے والے آلودگی اور سنگ مر مر کے کارخانوں سے نکلنے والے گاڑھے مواد سے پاک نہیں یوں آبی آلودگی انسانوں تک ہی محدود نہیں آبی حیات بھی خطرات سے دو چار ہے اندریں حالات ٹیسٹنگ لیبارٹریوں کی رپورٹ کافی نہیں ہو گی بلکہ اس کی رپورٹس پرصاف پانی کی فراہمی کے اقدامات اور آبی آلودگی کے وجوہات کا تدارک زیادہ اہم ہو گا جس پر توجہ کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  بھوک آداب کے سانچوں میں نہیںڈھل سکتی