تجارت کو فروغ دیں

دنیا کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔ پاکستان کی آبادی دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔اس وقت پاکستان میں چوبیس کروڑ سے زیادہ انسان ہیں جن میں نصف سے زیادہ انتہائی غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ گزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں غربت میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ پاکستان میں غربت بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہاں روزگار کے مواقع کا نہ ہونا ہے ۔ پاکستان کی زیادہ آبادی پہلے دیہات میں رہائش پذیر تھی ۔جو اب بڑے شہروں کے طرف منتقل ہوچکی ہے اور مزید تیزی کے ساتھ یہ عمل جاری و ساری ہے ۔ پاکستان کے تین صوبے خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور کراچی حیدر آباد کو چھوڑ کر باقی سندھ میں اس وقت کسی قسم کا روزگار دستیاب نہیں ہے ۔ ان علاقوں میں زیادہ تر لوگ سرکاری ملازمتوں کے سہارے زندگی گزار رہے ہیں ۔ پنجاب کے کچھ شہروں میں کچھ پیداوری اور تجارتی سرگرمیاں ہورہی ہیں لیکن اس میں بھی بتدریج کمی واقع ہورہی ہے ۔دنیا میں چین ، انڈونیشیا ، انڈیا ، بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی ہیں جن کی آبادی بھی بہت زیادہ ہے مگر ان ممالک میں روزگار کے مواقع بھی پیدا کیے گئے ہیں ۔ مذکورہ بالا ملکوں نے گزشتہ دو تین دہائیوں میں اپنی جی ڈی پی کو بہت بہتر کیا ہے جس سے ان ملکوں کے مکینوں کی زندگی بہتر ہوئی ہے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں پاکستان کی جی ڈی پی میں بھی کمی آئی ہے اور یہاں لوگوں کی زندگی بھی بہت مشکل ہوگئی ہے ۔ پاکستان کے پاس دنیا کی دیگر ممالک کے مقابلے میں وسائل زیادہ ہیں ۔ اور پاکستان کا موسم اور زمینی صورتحال بھی دنیا کے دیگر ممالک سے بہت بہتر ہے لیکن اس کی باوجود یہاں ترقی نہیں ہورہی ۔ اس کے کئی ایک وجوہات ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے ۔خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں کرپشن یعنی مالی بد عنوانی بہت زیادہ ہے ۔ جس کی وجہ سے یہاں سرمایہ کاری نہیںہورہی اور کرپشن کی وجہ سے وسائل شخصی تصرف میں چلے جاتے ہیں اور ملک کی ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے ۔ دوسری وجہ سیاسی عدم استحکام ہے ۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے جس کی وجہ سے یہاں حقیقی حکومتوں کی جگہ مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ اقتدار میں آتا ہے جس کے پیچھے سرمایہ کار ہوتے ہیں جو ان کو حکومت میں لانے کے لیے کروڑوں خرچ کرکے پھر کھربوں کماتے ہیں ،اس کام میں پاکستان کے تمام صاحب اختیار ان کا ساتھ دیتے ہیں ۔ اور اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں ۔ تیسری بڑی وجہ سمگلنگ ہے ۔پاکستان گزشتہ کچھ دہائیوں سے خود انحصاری اور پیداواری صلاحیت پیدا کرنے کی جگہ سمگلنگ کے لیے سہولت کاری کررہا ہے ۔جس کی وجہ سے مقامی طور پر کوئی بھی صنعت کامیاب نہیں ہورہی اور اس سمگلنگ کی وجہ سے کثیر ملکی زرمبادلہ باہر چلا جاتا ہے اور ملک میں ٹیکس جمع کرنے کا عمل متاثر ہوتا ہے ۔ سمگلنگ اس ملک میں اس حد تک ہے کہ اس میں ملک کا ہر مقتدر شخص اور ادارے کسی نہ کسی طور شریک ہیں ۔ بلوچستان اور پاکستان کے سابق قبائلی اضلاع ان سمگلروں کی جنت ہیں ۔ افغانستان ، ایران اور ہندوستان سے ہر شے سمگل ہوکر پاکستان آرہی ہے ۔ دو ہزار دس میں تو پاکستان کی حکومت نے کمال کردیا کہ افغانستان تک سمگلنگ کا مال پہنچانے کے لیے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام سے قانونی اجازت بھی دے دی کہ آپ دنیا سے کچھ بھی سمگل کرکے لانا چاہتے ہیں وہ اس نام سے لے آئیں اور وہ سار ا سمگلنگ کا سامان پاکستان بھر میں کھلے عام فروخت ہونے لگا ۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری وساری ہے ۔ آپ صبح سے لیکر رات تک یونیورسٹی روڈ اور رنگ روڈ پر دیکھیں گے کہ سمگل شدہ غیر ملکی کپڑا ، ٹائراور لاتعداد اشیاء موٹر سائیکل رکشوں کے ذریعہ لے جائی جارہی ہوتی ہیں ۔مگر مجال ہے کہ ہزاروں پولیس اور کئی ایک فوجی چیک پوسٹ ، کسٹم کا سینکڑوں عملہ اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے ان کو کچھ کہہ سکیں ۔ کارخانو مارکیٹ ، نوشہرہ ، مردان ،مینگورہ ، چکدرہ وغیرہ میں کپڑوں کی مارکیٹوں میں یہ سامان کہاں سے آرہا ہے۔ کیا اس کے لیے بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے ۔ ملاکنڈ ڈویژن اور سابقہ قبائلی اضلاع میں دس لاکھ سے زیادہ نن کسٹم پیڈ گاڑیاں کہاں سے آئیں اور کیوں بغیر ٹیکس کے پھر رہی ہیں ۔ ملک بھر میں یہ ایرانی مصنوعات کی مارکیٹیں کہاں سے یہ سامان لے کر آرہی ہیں ۔ گاڑیوں کے پرزے پورے پاکستان میں کہاں سے آرہے ہیں ،پورے ملک میں جو سونا آرہا ہے وہ کہاں سے آرہا ہے ۔ یہ اتنا عجیب ملک ہے کہ یہاں کرنسی کا کاروبار بھی سرعام ہوتا ہے ۔کسی بھی بنک میں جائیں آپ کو ڈالر نہیں ملیں گے اور فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے کسی بھی شخص سے جتنے چاہیں ڈالر ز لے لیں ۔ آپ بٹ خیلہ چلے جائیں جہاں ہنڈی حوالے کے ڈیلر بیٹھے ہوئے ہیں صبح ان کی دکانوں کے باہر ہزاروںلوگوں کی قطار ہوتی ہے جو باہر سے آئے ہوئے ہنڈی کے ذریعہ اپنے پیسے وہاں سے وصول کرتے ہیں ۔یعنی اس ملک میں سب کچھ مافیاز کے ہاتھوں میں ہے ۔ یہ سارے کام حکومت کے کرنے کے ہیں ۔ پاکستان انڈیا کو چھوڑ کر دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں انتظامی محکمے اور ان محکموں کے اہلکار ہیں ۔ جن کا بنیادی کام ان سب کاموں کو روکنا ہے مگر کمال دیکھیں ان لاکھوں افراد کی موجودگی میں یہ سب کچھ ہورہا ہے ۔ اس سب کے نتیجے میں ملک میں قانونی تجارت نہیں ہورہی اور ملک میںکوئی پیداوری صلاحیت بھی پیدا نہیں ہورہی جس کے نتیجے میں ملکی ترقی اور استحکام کا پہیہ رُکا ہوا ہے ۔ اس ملک کو تجارت کی ضرورت ہے قانونی تجارت کی جس کے نتیجے میں ملک میں ہر چیز کی مقامی پیداوار شروع ہوجائے گی ۔ ملکی ضرورت سے اضافی چیزیں باقی دنیا کو بیچ کر ہم زرمبادلہ کمائیں گے جیسے انڈیا ، بنگلہ دیش ، جنوبی کوریا ، ملائیشیا، چین اور دیگر ممالک کررہے ہیں ۔ تجارت نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے ۔ لوگ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہورہے ہیں ۔ پاکستان اپنا کثیر زرمبادلہ خرچ کرنے پر مجبور ہورہا ہے ۔حکومت کے پاس ٹیکس جمع نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ رُک گیا ہے ۔ حکومتیں تعلیم اور صحت پر پیسہ خرچ نہیں کررہی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کا مستقبل خطرے میں پڑ رہا ہے ۔پاکستان کی آبادی کو روزگار دینے کے لیے ہمیں ہر ضلع میں پیداواری یونٹ لگانے ہوں گے جہاں ان لوگوں کو روزگار ملے گا اور پاکستان خودانحصاری کی طرف جائے گا ۔ پاکستان میں سونے کے کاروبار کو قانونی بنایا جائے اور سونا رکھنے والوں پر ٹیکس لگایا جائے تاکہ لوگ پیسہ سونا خرید کر گھر میں رکھنے کے بجائے اس سے کوئی کاروبار کرسکیں ۔ رئیل سٹیٹ کو بھی سخت ترین قانونی دائرے میں لایا جائے ۔ہنڈی اور حوالہ کا سلسلہ بند کردینا چاہئے اور غیر ملکی کرنسی کا تمام لین دین صرف سرکاری بنکوں کے ذریعہ ہونا چاہئیے۔یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے آج ایک سرکاری حکم کردیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیں یہ سب کل سے بند ہوجائے گا ۔ وہ کرپٹ سرکاری ملازمین جوان کاموں میں ان لوگوں کے آلہ کار بنتے ہیں ان کی نشاندہی کون سا مشکل کام ہے۔ ان کو نوکری سے فارغ کریں اور سزا دیں ۔ پورے ملک میں یکساں ٹیکس قوانین نافذ کردیں ۔ اس ملک میں تنخواہ دار طبقے کے علاوہ کس سے ٹیکس لیا جاتا ہے ۔ آمدن سے زیادہ جس جس کے پاس اثاثے ہیں ان کو بحق سرکار ضبط کیا جائے تو یہ ملک ہفتوں میں ٹھیک ہوسکتا ہے ۔جب اس ملک میں چپڑاسی سے لیکر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر تک رشوت اور سفارش پر بھرتی ہوں گے تو یہ کیا خاک ترقی کرے گا۔تجارت کو فروغ دیں ۔ دنیا کو تجارت کے لیے بلائیں اور دنیا کے پاس تجارت کے لیے جائیں سارے مسائل حل ہوجائیں گے ۔ تعلیم اور صحت پر سرمایہ کای کریں ۔اور غیر ضروری اور تعیشات والے اخراجات ختم کردیں ۔ ملکی اداروں کو جدید ماڈل پر چلائیں اور لاکھوں نا اہل سرکاری عملے کی جگہ صرف چند متعلقہ ماہرین کی ٹیم رکھیں جس طرح دنیا کررہی ہے ۔تمام معاملات کو ڈیجیٹل سسٹم پر منتقل کریں ۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو ہر دو تین برس بعد ایک مافیا کی جگہ دوسرے مافیاکو اقتدار دے کر اس ملک کو ہم پتھر کے دور میں واپس پہنچوائیں گے ۔

مزید پڑھیں:  اب نہیں تو کب ؟