نکاح ہی نہیں طلاق بھی مشکل نہیں ہونی چاہئے

دین اسلام میں صرف نکاح ہی آ سان نہیں طلاق بھی مشکل نہیں ایک معروف خاتون ڈاکٹر کے اس بات پر میں چونک گئی وہ ایک گھریلو تقریب میں نجانے کس موضوع پر بات کرتی ہوئی یہ کہہ گئیں جب لڑکیاں ادھر ادھر ہوگئیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے بڑی عجیب بات نہیں کی اور ایسی بات کیونکر کی تب وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ میری طرف متوجہ ہوئیں کچھ خواتین کو شاید یہ موضوع گفتگو ہی اس قدر بری لگی کہ وہ ناگواری کے ساتھ اٹھ کر چلی گئیں چونکہ ان کا جملہ مجھے چبھ گیا تھا اور میں سوچتی رہی گئی تھی کہ ایک سنجیدہ ماہر نفسیات خاتون نے یہ بات بلاوجہ نہیں کہی ہوگی اور وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں طلاق لینا بچوں کا کھیل نہیں طلاق کو تو معاشرے نے اتنا معیوب اور باعث تضحیک بنا دیا ہے کہ جینا دوبھر ہو جاتا ہے ۔میں کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن وہ آ گے بڑھ گئیں اور بتانا شروع کیا کہ ان کے پاس روز اس طرح کے دوچار کیسز آ تی ہیں جن کی کہانی سن کر میں ان کو نکاح یا پھر طلاق کا مشورہ دیتی ہوں حالانکہ ہمارے معاشرے میں ان دونوں پر اصل فریق یعنی عورت کا اختیار کم اور سرپرستوں کازیادہ ہوتا ہے اکثر میں تو متاثرہ عورت سرے سے فریق ہی نہیں سمجھی جاتی سب سے زیادہ مسائل اس وقت سامنے آ تے ہیں جن میں رشتہ طے ہوتے وقت زبردستی ہوئی ہوتی ہے یہاں تک کہ بوقت نکاح زبردستی انگوٹھا لگوا کر نکاح کا اعلان کر دیا جاتا ہے ایسی ایسی کہانیاں کہ دل و جگر چیر کے رکھ دیتی ہیں جو دلہن یا دولہا کمرے کا دروازا بند ہوتے ہی عجلہ عروسی میں اگلے کو یہ کہہ دے کہ ان کو نکاح کے لیے مجبور کیا گیا تھا اور وہ اس سے کسی چیز کی توقع نہ رکھے تو باقی رہ کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود آ فرین ہے ان لڑکے اور لڑکیوں پر جو یہ سن کر بھی رشتہ نبھانے اور برداشت کا وعدہ کرکے اس کو نبھانے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں میں بھی کوشش کرتی ہوں کہ ان کی حوصلہ افزائی کروں کیونکہ رشتہ نبھانے ہی میں بہتر ی نظر آ تی ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر بار ایسا ہو زیادہ تر تو تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی ہی پر تل جاتے ہیں اور محاذ آ ر آئی شروع ہو جاتی ہے یہ تو سب کو معلوم ہے لیکن میرے پاس آ نے والے جوڑے وہ ہوتے ہیں جو رشتے کو نبھانے کی ٹھان لیتے ہیں مگر ان کو جذباتی مسائل کا سامنا ہوتا ہے جو فطری امر ہے کہ ان کے دل و دماغ میں کوئی اور بسا ہو اور وہ جس سے رشتے میں بندھ گئے ہیں ان کو بھی متاثر نہ ہونے دینے کا راستہ تلاش کریں ہے تو بہت مشکل مگر کوشش کرنے والے کامیاب بھی ہوتے ہیںپھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ زندگی گزر رہی ہو تی ہے بچے بھی ہوجا تے ہیں دریا کے کنارے منجمد ھار پر تو ملتے ہیں مگر دریا کے کناروں کی طرح بس ساتھ چل تو رہے ہو تے ہیں مگر طغیانی نہ ہو تو ملنے کے رودار نہیں یوں گزر تو جاتی ہے مگر کیسے گزرتی ہوگی کچھ مت پوچھو ۔مردوں کی جانب سے بڑے دل کا مظاہرہ ہوتا ہے اور عورت کو قدرت نے فطرت میں جو لچک دی ہے وہ ان کے کام آ تاہے کبھی کبھی تو میں یہ تک سوچنے لگ جاتی ہوں کہ اس طرح سے ہوا ان کا نکاح شرعی طور پر درست بھی ہے یا نہیں ایجاب وقبول تو قبول کرنے کا نام ہے زبردستی کا نہیں اسلام میں طلاق کو بھلے ناپسند یدہ قرار دیا گیا ہے مگر بہرحال ایک مشکل رشتے سے نکلنے کا تو موقع دیا گیا ہے جسے مشکل معاشرے نے بنایا ہے اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ اور بے جا شرائط اور دبائو ہوتا ہے جیسے لڑکیوں کے تحفظ کے نام پر اختیار کیا جاتا ہے مگر بعض اوقات یہ حربہ الٹا پڑ جاتا ہے جہاں نکاح وطلاق مشکل نہیں وہاں شادیاں بھی ہوتی ہیں اور طلاق شدہ عورتوں کے رشتے ونکاح کو عاربھی نہیں سمجھا جاتا جو کچھ میرے سامنے آ تاہے تو میں اس ناپسند یدہ عمل کو بھی نعمت سمجھنے لگتی ہوں کہ کوئی تو راستہ موجود ہے دوزخ سے نکلنے کا کوئی بھی عورت معاشرے کی وجہ سے طلاق کا طوق گلے میں ڈالنا نہیں چاہتی جس کی شادی ہی زبردستی کی ہو وہاں مسائل بہرحال بھی پیدا ہوتے ہیں والدین وقتی طور پر تو بیٹی بیاہ کر مطمئن ہوجاتے ہیں مگر کیا بیتتی ہے اس کا احساس نہیں اور ایسی ہی شادی شدگان نفسیاتی عوارض کا زندگی بھر کے لیے شکار ہوکر الٹا روگ بن جاتے ہیں والدین خود کو شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا کی جو امید لڑکا یا لڑکی سے لگاتے ہیں وہ دونوں کی زندگیوں کا روگ بن جاتا ہے کم از کم ایک کی تو زندگی خراب ہوہی جاتی ہے تو کیوں نہ احتیاط کی جائے کسی کی بیٹی اور بیٹے نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوتا کہ وہ اگلے کو بھگتے اور سنوارنے کی ذمہ داری بھی ان کی نہیں جب معاملات بگڑ جائیں اور طلاق ناگزیر ہو جائے تو معاشرے کے خوف سے اپنی اولاد کو تیاگ دینے کی بجائے اسے قبول کرنے اور سامنا کرنے کا فیصلہ کر لینا چاہیئے میں نے گزشتہ روز ہی کسی ملک کی خواتین کے بارے میں پڑھا تھا کہ وہاں کی عورتیں اپنے مردوں کی چار چار شادیاں خوشی خوشی کراتی ہیں یہاں تک کہ بیوی خود شوہر کے لیے دلہن ڈھونڈ تی ہے ایک غیر مسلم ملک کی خواتین کی جانب سے مردوں سے مطالبہ کیاگیا تھا کہ وہ ایک سے زیادہ شادی کرکے عورتوں کو سہارا دیں عرب ممالک میں تو اس کی گنجائش ہے مگر ہمارے ہاں مرد چاہیں بھی تو خواتین کبھی بھی ایسا ہونے نہ دیں خواہ ان کو معلوم ہی کیوں نہ ہو کہ اس کا شوہر باہرمنہ مار کے آتا ہے اس معاشرے میں تو نہ دوسری شادی کی ضرورت پوری کرنے کی گنجائش ہے اور نہ طلاق یافتہ عورت کو قبول کرنے کی ۔شادی طے کر تے وقت جو کڑی شرائط رکھی جاتی ہیں ایسے میں شادی بھی مشکل اور طلاق بھی مشکل ان دونوں میں آ سانی پیدا کی جائے تو شاید وہ نفسیاتی عوارض جس کا ہر شادی شدہ شکار ہے شاید اس میں کمی آ ئے نکاح تو نعمت ہے ہی طلاق بھی نعمت ہے جس میں بندوں کے لیے آ سانی ہے مگر لوگ خود ہی اسے مشکل بنا دیں تو مسائل تو کھڑے ہو نا ہی ہونا ہے پختون معاشرے میں عورت تو عورت مرد کو بھی طلاقی کا طعنہ دیا جا تا ہے معاشرے کے خوف سے کچھ ایسی بھی انہونیاں بھی سنی ہیں کہ کئی بچوں کی ماں شوہر سے طلاق لے کر انہی کے ساتھ رہنے پر صرف اس بنا پر مجبور ہے کہ ان کی علیحدگی کی تشہیر ہو جائے تو ان کی بچیوں کے رشتوں کا مسئلہ بن سکتا ہے اور وہ نہیں چاہتیں کہ ان کی زندگی کی پرچھائیاں ان کے بچوں کی زندگی پر پڑے ایک خوبصورت خود مختار خاتون نے تو دوسری شادی بھی کررکھی ہے مگر اس کا اعلان اس لئے نہیں کرتی کہ ان کے بچوں کی عائلی زندگی ان کی وجہ سے متاثر ہو وہ اپنے شوہر سے بھی رازداری میں ملتی ہے شوہر کی چونکہ پہلی بیوی بھی ہے اس لئے انہیں بھی یہ رشتہ اسی طرح منظور ہے یہ تو دو مثالیں تھیں ورنہ یہ معاشرتی خوف اس سے بھی بھیانک واقعات کا حامل ہے کہ عورت مطلقہ ہو کر بھی اسی شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوتی ہے یہ سب معاشرتی دبائو کے شاخسانے ہیں جو دین اور اخلاقیات پر بھی حاوی ہیں کیا اس سے کہیں بہتر یہ نہیں کہ عورت طلاق لے کر اپنی زندگی گزار لے بہن بھائی عزیز واقارب سر پرستی سے منہ نہ موڑیں رہا معاشی بوجھ کا سوال یہ دین کی طرف سے قریبی اعزہ کو ذمہ داری دی گئی ہے اور بے آ سرا افراد کی مدد ویسے بھی بڑے ثواب کا کام ہے عورت خود بھی کام کر سکتی ہے کچھ نہ ہو تو گھروں میں برتن مانجھ کر خود کو اور اپنے بچوں کو پال سکتی ہے مگر ہمارا معاشرہ اور ہم لوگ اس پر بھی تیار نہیں ہم اپنی بیٹی کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں مگر مطلقہ ہو نا برداشت اور گوارہ نہیں ذرا سوچیں کہ ہم کیا ہیں مسلمان کہلانے کے قابل بھی ہیں کہ نہیں ۔۔خاتون ڈاکٹر نے ایک آ ہ بھری اور کہنے لگیں باقی کہانی پھر سہی ۔میں سوچتی رہ گئی کہ یہ ایک ایسی ڈاکٹر نی کے مشاہدات اور تجربات ہیں جن کا واسطہ اونچی سوسائٹی کے افراد سے پڑتا ہے زیادہ سے زیادہ متوسط طبقے کا کوئی آ جائے زیریں طبقے کے مسائل کیا ہونگے جن میں تعلیم اور شعور دونوں کی کمی ہے اس کا آسان حل یہ ہوسکتا ہے کہ شادی کی سب سے رسمیں ختم کریں طلاق کو بھی شجر ممنوعہ نہ بنائیں یقین جانئے کافی مالی اور نفسیاتی مسائل ختم ہو جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  تعلیمی ایمرجنسی بمقابلہ آؤٹ آف دی بکس