پس از انتخابات سیاسی منظر نامہ

انتخابی نتائج کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے اختیار کردہ رویوں سے ملک میں سیاسی استحکام پر سوال ا ٹھنا شروع ہوگئے ہیں ‘ اور وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں میں نئی حکومتوں کے قیام کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین منفی قسم کی بیان بازی تھمنے ہی میں نہیں آرہی ہے جس کے نتائج ملک و قوم کے مفادات کے خلاف بھی ہوسکتے ہیں حالانکہ صورتحال کاتقاضا ہے کہ انتخابات کی تلخی بھلا کرآگے بڑھا جائے اور ملک کو درپیش اقتصادی اور معاشی مسائل کا ایک ایسا حل ڈھونڈا جائے جو عوام کے بہترین مفاد میں ہو ‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ جماعتیں سیاسی طور پر بلوغت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ”بالک ہٹ” کے رویئے کو اپنا کر سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے پر تلی ہوئی ہیں ‘ نظر بہ ظاہر تو صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی ‘ بلوچستان میں مخلوط حکومت ‘ پنجاب میں مسلم لیگ نون ‘ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہونے جارہی ہیں ‘ البتہ وفاق تادم تحریر پیپلز پارٹی کی حمایت سے نون لیگ اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے شہباز شریف کی حکومت کے قیام پر اتفاق نظر آرہا ہے تاہم تحریک انصاف کی جانب سے بھی(مینڈیٹ پرچوری کے الزامات لگاتے ہوئے)اپنی حکومت قائم کرنے کے حوالے سے بیانات سامنے آرہے ہیں اس حوالے سے گزشتہ روز نون لیگ کے صدر شہباز شریف نے تحریک انصاف کو پیغام دیا تھا کہ اگر وہ مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن واضح کر دے یعنی اپنے ارکان کی تعداد سادہ اکثریت کے حوالے سے ثابت کردے تو انہیں حق دیا جائے گا کہ وہ اپنی حکومت بنا لے اور اگر وہ ا یسا نہیں کرسکی تو پھر نون لیگ اپنے ارکان کی اکثریت ثابت کرکے حکومت بنالے گی ‘ اصولی طور پر یہ پیشکش جمہوری اصولوں کے عین مطابق ہے اس دوران اگرچہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین مشترکہ حکومت سازی کے حوالے سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے اور جوخبریں سامنے آتی رہیں ان کے مطابق پیپلز پارٹی کی خواہش تھی کہ بلاول بھٹو زرداری کووزیر اعظم کے طور پر قبول کیا جئے اور میاں نواز شریف کو صدر مملکت کا عہدہ قبول کرلیں ‘ مزید کچھ عہدوں پر بھی پیپلزپارٹی کے مطالبات سامنے آئے جن میں چاروں صوبوں کے گورنرز ‘ چیئرمین سینیٹ ‘ سپیکر قومی اسمبلی وغیرہ کے عہدوں پر مطالبات شامل تھے تاہم یہ بیل کسی طور منڈھے نہ چڑھ سکی جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے ان دونوں بلکہ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ بھی اتحاد کرنے سے واضح ا نکار کے بعد پیپلز پارٹی نے حکومت میں شامل نہ ہوتے ہوئے نون لیگ کو وفاق میں حمایت دے کر لیگی قیادت میں حکومت کے قیام کی راہ ہموار کر دی جس کے بعد گزشتہ روز چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر سابقہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے مابین مذاکرات میں شہباز شریف کی قیادت میں وفاق میں حکومت کے قیام پراتفاق کیاگیا’ اس موقع پر شہباز شریف نے تمام سیاسی جماعتوں کو چارٹرآف اکانومی پرایک بارپھرمشترکہ موقف اپنانے کی دعوت دی ‘ یاد رہے کہ پانچ سال پہلے بھی یعنی 2018ء کے انتخابات کے بعد بطور قائد حزب اختلاف اس وقت کی تحریک انصاف حکومت کوچارٹر آف اکانومی پر بات چیت کی دعوت دی تھی لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ‘ وجوہات کی تفصیل میں جانے اور تلخ یادوں کو کریدنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بہرحال اس وقت ملک جس اقتصادی ناہمواری اور معاشی مشکلات سے دو چار ہے جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اگلے ماہ کے شروع میں کسی بھی وقت متوقع ہیں اور ان حالات کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے ‘ اپنی اپنی انائوں کے خول سے باہر آکر صرف ملکی مفاد میں سوچیں تاکہ جن مشکلات کا ہمیں سامنا ہے ان سے جان چھوٹ جائے اورملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے ۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کی اصل حقیقت