منفی ہتھکنڈوں سے اجتناب کیجئے

اس امر پر دو آراء نہیں کہ ملک کو درپیش معاشی مسائل کے حل کیلئے سیاسی استحکام ازحد ضروری ہے۔ پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو موجودہ حالات میں صبروتحمل کے ساتھ دانش مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سیاسی اختلافات یا بعض فیصلوں پر مختلف آراء کا ہونا انہونی ہرگز نہیں لیکن بدقسمتی سے مروجہ سیاست اعلیٰ ظرفی، دانش مندی اور تدبر سے محروم ہے۔ اختلاف رائے کی جگہ نفرت و عدم برداشت کا دوردورہ ہے۔ چند دن قبل سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے اس مؤقف کو دہرایا کہ پاکستان سری لنکا بننے جارہا ہے۔ اس سے قبل ان کی جماعت نے آئی ایم ایف کو پاکستان کیلئے مالیاتی ریلیف دینے سے روکنے کیلئے خط لکھا بعدازاں پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں نے آئی ایم ایف کو بھجوائے گئے خط کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں کو سوچ سمجھ کر پاکستان کو قرضہ دینا چاہیے کیونکہ یہ حکومت عوام کے ووٹوں سے نہیں ریاست کے تعاون سے اقتدار میں آئی ہے۔ اب گزشتہ روز عمران خان کے ایک سابق معاون شہباز گل کی قیادت میں واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے صدر دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اس موقع پر عالمی مالیاتی ادارے سے مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کیلئے قرضہ پروگرام روک دیا جائے۔ آئی ایم ایف کے صدر دفتر کے باہر مظاہرہ کرنے والے پی ٹی آئی کے اوورسیز کارکنوں نے چند نامناسب نعرے بھی لگائے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک پی ٹی آئی کے ذمہ داران کے بیانات، نعروں اور مطالبات سے یہی لگتاہے کہ تصادم کی پالیسی سے پیچھے ہٹنے کی بجائے اس میں مزید تیزی لانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں اس طرز عمل پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان آج جن معاشی مسائل سے دوچارہے ان مسائل کے جنم لینے اور گھمبیر ہونے میں خود تحریک انصاف کا بھی بڑا حصہ ہے اپنے سیاسی مخالفین کیلئے بدترین نفرت کے مظاہرے اور الزامات کی تکرار کے باوجود پی ٹی آئی نے اپنے ساڑھے تین برس کے دور اقتدار میں ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لینے کا ریکارڈ قائم کیا۔ اسی دور میں مختلف شعبوں میں ہونے والی کرپشن پر اس کے ناقدین نے اسے آڑے ہاتھوں لیا یہاں تک آئی ایم ایف سے طے کئے جانے کے باوجود پی ٹی آئی حکومت نے کورونا وباء کے دنوں میں ملنے والی بیرونی امداد کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے سے گریز کیا جس سے اس امداد میں سے کھربوں روپے کی کرپشن کے الزامات کو تقویت ملی۔ ستم یہ ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین پر نخوت بھرے انداز میں جو الزامات لگاتے تھے آج ویسے ہی الزامات کی بناء پر جیل میں ہیں ،کرپشن کے ایک مقدمہ میں انہیں سزا ہوچکی، دوسرا زیرسماعت ہے۔ گو وہ اور ان کے حامی ان مقدمات کو سیاسی انتقام کا حصہ بتاتے ہیں اس کیساتھ ہی ان کا مؤقف ہے کہ ان کے مخالفین پر جو الزامات ہیں وہ درست ہیں۔ ”میں سادھو سنت تم چور” کی یہ سوچ مزید مسائل پیدا کرنے کا مؤجب بنے گی۔ سیاسی عدم استحکام کو اپنی سیاسی بقاء کی ضرورت سمجھتی پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں نے پچھلے چند دنوں کے دوران جو بیانات دیئے ان سے واضح ہوجاتا ہے کہ جو لوگ حالات میں بہتری کی امید باندھے ہوئے ہیں وہ سرابوں کے تعاقب میں سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ جہاں تک موجودہ حکمرانوں پرریاست کے تعاون سے اقتدار میں آنے کے الزام کا تعلق ہے تو غالباً یہ پی ٹی آئی 2018ء کے انتخابی نتائج اور اقتدار میں آنے کے اپنے تجربے کی روشنی میں کہہ رہی ہے۔
تلخ حقیقت بہرطوریہی ہے کہ انتظامی و سیاسی امور اور انتخابی عمل میں ریاست کے کسی نہ کسی طرح کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا البتہ اپنے وقت میں جو کردار ملکی استحکام کی ضمانت قرار دیا جاتا ہے دوسرے وقت میں اس کردار کو جمہوری نظام اور عوام کے حق انتخاب پر حملہ کہا جاتا ہے۔ ہماری دانست میں سیاسی جماعتوں کو اپنی ترجیحات، سوچ، عمل اور حصول اقتدار کی تڑپ میں اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کی خواہش سمیت تمام امور پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ملک اور نظام کو آگے بڑھانا ہے تو کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کوئی بھی فرشتہ نہیں سیاستدان انسان ہی ہیں ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں ایک دوسرے کو گرانے کیلئے انہوں نے اپنے اپنے وقت پر اسٹیبلشمنٹ کے معاون کا کردار ادا کیا۔ اعتراف اور مستقبل کیلئے حکمت عملی وضع کرنے میں جتنی تاخیر ہوگی معاملات اتنے ہی بگڑیں گے۔ سیاسی جماعتوں بالخصوص پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کو بطور خاص ملک اور عوام کو درپیش مسائل کی سنگینی کو شعوری طور پر سمجھناہوگا۔ بالفرض اگر یہ بات درست بھی ہو کہ پاکستان سری لنکا بننے جارہا ہے تو کیا پی ٹی آئی کی قیادت اور ہمدرد کسی دوسرے سیارے پر آباد ہیں کہ وہ بدترین ابتری سے محفوظ رہ جائیں گے؟ سیلاب، زلزلہ اور سیاسی و معاشی عدم استحکام پسندوناپسند میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ ان سے جنم لینے والی تباہیاں ہر سو بربادیاں برپا کردیتی ہیں۔
پی ٹی آئی اپنے سیاسی مخالفین سے اختلاف رکھے لیکن عالمی مالیاتی اداروں کو منفی خطوط لکھنے یا بیرون ملک مظاہروں کے ذریعے مالیاتی اداروں اور حکومتوں کو پاکستان کیلئے معاشی استحکام کے دروازے بند کرنے کے مطالبات کی تکرار سے اجتناب برتے یہ ملک اس میں آباد تمام لوگوں کا ہے کسی بھی سیاسی جماعت کا حلقہ اثر واہگہ، تفتان اور طورخم کی اْس اور نہیں بلکہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں ہی ہے اس لئے پاکستان اور اہل پاکستان کے مفادات کو تقدم حاصل ہونا چاہیے۔ اندریں حالات یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کیلئے ہر شخص اور جماعت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ہر معاملے میں ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانا یا مخالفت برائے مخالفت کی روش پر گامزن رہنا افسوسناک ہے۔ ایسا ہی افسوسناک ہے جس کا مظاہرہ گزشتہ روز اسرائیلی مظالم کے خلاف قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد کے وقت سنی اتحاد کونسل کا حصہ پی ٹی آئی کے بعض حمایت یافتہ ارکان نے ”نو”کہہ کر کیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت نفرت کے ہمالیہ سے عمل کی دنیا میں اترنے میں مزید تاخیر نہیں کرے گی اور اس امر کو یقینی بنائے گی کہ پاکستان اور عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے، مشترکہ کوششوں سے ان مسائل کا خاتمہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی