حقیقی سیاستدانوں کو آگے آنے دیں

آج ایک تاریخی تصویر پر نظر پڑی تو دل سے ایک ہوک سی اٹھی۔ تصویر میں بلوچستان کے سابق گورنر نواب محمد اکبر خان بگتی پیار و محبت سے جناب ذوالفقار علی بھٹو کا سگار سلگا رہے ہیں۔دکھ کی ایک لہر نے مجھے گھیر لیا۔ کہ ہم کتنی قدآور شخصیات کھو بیٹھے ہیں۔اور اب بونوں سے کام چلا رہے ہیں۔ عالم اسلام پارہ پارہ ہے۔غزہ پر قیامت گزر رہی ہے۔لیکن بھٹو موجود نہیں اور عمران خان سلاخوں کے پیچھے ہے۔ خدا نخواستہ غزہ کا سقوط ہو گیا تو پھر مدینہ منورہ کی باری ہے۔ لیکن یہاں بابو ہی ہماری نمائندگی کر رہے ہیں۔آج عالم اسلام میں پائے کے رہنما ہوتے تو پوری اسلامی دنیا کا ایک طوفانی دورہ کرکے متحدہ محاذ بنا لیتے۔ اور اسرائیل کو کم از کم غزہ سے واپس جانے پر مجبور کردیتے۔اور دو ریاستی حل کی طرف پیش قدمی ہوتی۔لیکن افسوس ہر طرف سکوت ہے۔ بھٹو کے گناہوں میں ایک گناہ یہ بھی تھا کہ اس نے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی عملی مدد کی تھی۔پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد رکھنا اور قادیانیوں کو پارلیمنٹ کے ذریعے غیر مسلم قرار دلوانا اس کے دوسرے بڑے گناہ تھے۔
افسوس صد افسوس ۔ دونوں کو ہمارے کوتاہ اندیشوں نے شہید کرادیا۔ایک کو پھانسی پر لٹکا کر اور دوسرے کو توپوں سے اڑا کر ۔بھٹو مرحوم کے خلاف مقدمے کو سپریم کورٹ غلط قرار دے چکی۔ جبکہ بگتی مرحوم کو انصاف کیلئے ابھی مزید انتظار کرنا پڑیگا۔الیکشن جیتے ہوے شیخ مجیب کی پھانسی بھی طے شدہ تھی۔ لیکن بھٹو جیسے جہاں دیدہ اور دور اندیش سیاسی لیڈر کے اقتدار سنبھالنے کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی۔ اب الیکشن جیتا ہوا عمران خان ریاستی جبر بھگت ریا ہے۔ایک دفعہ مریخ سے آنے والی گولیوں سے صرف زخمی ہوا۔ مرا نہیں ۔ دوبارہ بچ جانے کی کوئی گارنٹی نہیں۔اللہ تعالی عمران خان اور پاکستان کی حفاظت کرے ۔آمین
بگتی مرحوم کے مطالبات بس کسی ٹریڈ یونین کے مزدور لیڈر جتنے تھے یا کسی میونسپل کار پوریشن کے لیول کے۔ جن کو پورا کرنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ اور نہ کوئی ذیادہ خرچہ آ رہا تھا۔ لیکن ہم۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تو ہم ہیں۔پتہ نہیں ہمیں کیوں شوق ہوتا ہے گولیاں چلانے کا۔ قتل و غارت کا ۔ سیاسی رہنماوں کو ذلیل کرنے کا ۔حالانکہ قوم پر سخت وقت آتا ہے اور بیرونی قوتیں قوم میں انتشار پیدا کرنے لگتی ہیں تو یہی سیاسی لیڈر قوم کا ہر اول دستہ بن کر میدان میں آتے ہیں۔قوموں کو منظم کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کو پھر کسی گاوں’ کسی کوچے میں پناہ نہیں ملتی ۔ تھک ہار کر وہ مجبورا قومی دھارے میں واپس آنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور بڑے دلوں اور حاضر دماغ والے سیاسی رہنما انہیں دوبارہ گلے لگا کر قومی تعمیر و ترقی میں مصروف کرا دیتے ہیں۔قوموں کو متحد رکھنے اور ان کو محبتوں کی لڑیوں میں پرونے کا کام صرف مخلص سیاسی رہنما ہی جانتے ہیں۔کسی آمر کے اشاروں پر یس سر کہنے والے پتلے نہیں۔پختونخوا اور بلوچستان کے ناراض لوگوں کو منانا بھٹو اور بگتی جیسے رہنماوں کیلئے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ خاص کر آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ۔لیکن یہاں تو عقل و فہم سے عاری کچھ سمارٹ لوگ شروع ہی سے اقتدار پر قابض رہے ہیں۔اور ان کی الٹی سیدھی حرکات کے نتیجے میں آدھا ملک پہلے ہی ڈوب چکا ہے اور بقیہ آدھا دیوالیہ اور غیر محفوظ ۔ شاید پڑھائے جانے والے سلیبس میں کوئی کمی ہے ۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی برادری بھی قوم کے سیاسی رہنماوں کی ہی بات سنتی ہے۔بندوق برداروں کی نہیں۔آج عوام کی ایک بڑی اکثریت قومی معاملات سے لاتعلق اور غیر جانبدار ہو چکی ہے۔قوموں کی تباہی کا آغاز اسی رویے سے ہوتا ہے۔اور جب دشمن حملہ کرتا ہے۔تو قوم صرف تماشہ دیکھتی ہے۔ملکی دفاع کیلئے آگے نہیں بڑھتی۔دہشت گردوں کو گلی کو چوں میں منڈلاتے دیکھ کر بھی آنکھیں بند کر لیتی ہے۔جب عوام کی عزت و آبرو غیر محفوظ ہو جائے اور ان کی محنت و مشقت سے بھرا ہوا خزانہ بھی محفوظ نہ رہے تو پھر کونسا ملک ؟ کونسی قوم ؟ ہمارے ہاں نہ تو قوم کی عزت و آبرو محفوظ ہے۔نہ خزانہ ۔خزانے کا بڑا حصہ بیرون ملک جائیدادیں خریدنے اور خفیہ اکاونٹ میں چلا جاتا ہے اور جہاں تک کسی شہری کے عزت و وقار کا سوال ہے۔تو وہ ماضی کا حصہ بن چکا۔اب تو پولیس اور دوسرے خفیہ ادارے رات کے پچھلے پہر گھروں میں گھس کر کسی بھی شہری کو اٹھا کر غائب کرا دیتے ہیں۔عدالتیں شہریوں کو انصاف دلانے میں ناکام ہو چکی ہیں۔اب توخود جج صاحبان خفیہ اور اعلانیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کی سپریم جوڈیشل کونسل کو حالیہ شکایت ہمارے قومی چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔بنانا ریپبلک اور کیا ہوتا ہے؟ مارچ 1971 کے انتخابات کے بعد جب جنرل یحییٰ خان نے اکثریتی پارٹی کے لیڈر شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کرکے پارلیمنٹ کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا ۔تو پورے ملک میں افراتفری پھیل گئی۔بنگالی نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لئے۔کچھ بنگالی فوجی بھی بغاوت کرکے ان سے جا ملے۔ اور بھارت کی طرف سے جلد حملہ ہونے کی اطلاعات آنے لگیں تو اس وقت مغربی پاکستان کی اکثر سیاسی پارٹیوں نے یحیی خان سے مطالبہ کیا کہ اقتدار عوام کو منتقل کیا جائے۔لیکن اس وقت یحیی خان کے پٹھو سیاسی گروہ اور سرکاری میڈیا سیاسی رہنماوں پر طنز کر رہا تھا کہ کیا سیاستدانوں کے پاس کوئی جدید اسلحہ ہے جس سے یہ ملک کی حفاظت کریں گے۔مارچ سے دسمبر تک سیاسی تصفیے کی ساری کوششیں یحییٰ خان کے اقتدار نہ چھوڑنے کی وجہ سے ناکام ہو گئیں۔نتیجہ سب کے سامنے ۔ اگر اس وقت اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیا جاتا تو جو کم از کم نقد فائدہ ملتا وہ اتنے بڑے خون خرابے کے بغیر ہمارے(بقیہ 3صفحہ6)
بہادر فوجیوں کی عزت اور وقار سے گھر واپسی تھی۔ یہ فوجی ہمارے ہی بھائی، بیٹے، بھانجے اور بھتیجے تھے۔ باہر سے کوئی نہیں آیا تھا۔انڈین جنرلوں اور بین الاقوامی مبصرین نے بر سر عام یہ تسلیم کیا کہ پاکستانی فوجی بے سر و سامانی کے باوجود مشرقی پاکستان میں شیروں کی طرح لڑے۔ لیکن شکست ان کا مقدر تھا۔ کیونکہ جغرافیہ ان کا دشمن تھا۔ اسلحہ تو کیا ان تک خوراک پہنچانا بھی مشکل تھا۔ لیکن فتح ہو یا شکست۔ عزت و وقار سے گھر لوٹنا ان کا حق تھا۔
لیکن کیا کریں۔ہماری قسمتوں میں ہی یحییٰ خان، ضیاالحق اور مشرف لکھے ہوئے ہیں ۔ جو آدھا ملک کھونے اور افغانستان کی بے سود جنگوں میں لاکھوں ہم وطن شہید کرانے کے باوجود بھی ہیرو منوائے جا رہے ہیں۔اللہ نئے ہیروز کو ہدایت دے کہ عوامی رائے کا احترام کریں۔جینوئن سیاستدانوں کو آگے آنے دیں۔ اور اپنے آپ کو تفویض شدہ آئینی امور تک ہی محدود رکھیں۔باقی سارے راستے تباہی کے ہیں۔خواہ کتنے ہی پر خلوص نیت سے اختیار کئے جائیں۔ وما علینا الا البلاغ

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت پر اٹھتے سوال
مزید پڑھیں:  دبئی میں اربوں کی جائیدادیں!

حقیقی سیاستدان