کٹہرے میں کھڑی عدلیہ

وطن عزیز میں نظام عدل کی شفافیت کا تو ہر وقت سوال رہا ہے جواب بھی جواب طلب ہے لیکن سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججوں کو اس طرح دھمکائے جانے کا یہ پہلا موقع ہے جو اس وقت شروع ہوا جب نظام عدل میں دبائو اورمداخلت کی شکایت آئی اور اس پر سماعت شروع ہوئی ،جاری حالات میں ایک بڑے اور اجتماعی سماعت کے ا مکان کو تقویت مل رہی ہے ،سوال یہ ہے کہ اچانک اس طرح کا سلسلہ شروع کیوں ہوا اور اس کے پس پردہ کون ہوسکتے ہیں جو اتنی دیدہ دلیری سے ایوان عدل کے ستونوں پر حملہ آور ہیں بہرحال پوشیدہ عناصر کوکوئی نام نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ان کا کھوج لگانے اور بے نقاب کرنے کی توقع حقیقت پسندانہ امر ہوگا مگر چونکہ معاملہ انصاف کی علامتوں کا ہے تو اتنی آسانی سے یہ معاملہ سنبھلے گا نہیں دبائو کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور وہ پہلے ہی افادہ مختتم پہ ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان سمیت سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے ججز بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہوگئے۔پولیس عہدیدار نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز کو بھی اسی طرح کے خطوط ملے ہیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو بھیجے گئے خطوط میں پاؤڈرپایا گیا ہے، شبہ ہے کہ یہ پاؤڈر اینتھراکس ہے، اصل حقائق لیبارٹری رپورٹ کے بعد سامنے آئیں گے۔ ذرائع کے مطابق خط ایک نجی کوریئر کمپنی کا ملازم ہائیکورٹ لے کر آیا تھا جو اس نے ججز کے سٹاف ریسیو کروایا۔ ذرائع کے مطابق کوریئر کمپنی کے ملازم کو گرفتار کر لیا گیا اور اس سے تفتیش کی جارہی ہے۔یہ خطرے کی گھنٹی ہے دھمکی ہے یا شرارت اس بارے تحقیقات کے بعد ہی شاید کچھ سامنے آئے اور کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے بہرحال اس طرح کے حالات سے عدلیہ کی سکیورٹی پر تحفظات پیدا ہونا فطری امر ہے ،پاکستان کی عدلیہ انصاف کی فراہمی کی فہرست میں کس نمبر پر ہے یہ تو کوئی پوشیدہ امر نہیں، نظام ا نصاف یہاں تک کہ ججوں کے حوالے سے بھی مبینہ جانبداری کا تاثر بھی ناقابل تردید ہے لیکن اس کے باوجود یہ معاملہ اس لئے مزید سنگین اور باعث تشویش ہے کہ پاکستان کے بارے میں انسانی حقوق اور عدل و انصاف کے فراہمی کے ضمن میں عالمی طور پر تاثر پہلے ہی کچھ اچھا نہیں،اب پوری عدلیہ کو اس طرح کے خطرات اور مبینہ دبائو کے بعد بین الاقوامی طور پر اس کے منفی اثرات یقینی ہیں ،دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں نظام عدل کوشفاف بے لاگ بااختیار اور ہر قسم کے دبائو اور لالچ و سیاست سے محفوظ رکھنے اور بالاتر بنانے پر توجہ دی جاتی ہے بلکہ یقینی بنائی جاتی ہے ،جو منصف خود غیر محفوظ ہو اس سے انصاف کی کیا توقع کی جا سکتی ہے ۔ یہاں ہم ضمنی طور پر پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے گلہ مندی کے اظہار کے مراسلہ بھی تذکرہ کریں جس میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ ابراہیم خان نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے نام خط لکھا جس میں سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتیوں میں خیبر پختونخوا کو نظرانداز کئے جانے کا شکوہ کیا ہے۔چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان نے اپنے خط میں سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے لکھا کہ جسٹس نعیم اختر افغان کی بطور سپریم کورٹ جج تعیناتی کے بعد وہ سینیارٹی میں دوسرے نمبر ہیں اور وہ سپریم جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر بھی ہیں ،بنا بریں ان کا نام سپریم کورٹ کے ججز کے فہرست میں شامل ہونا چاہئے تھا،چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کا کسی دبائو میں آئے بغیر اہم مقدمات میں ریلیف دینے کی شہرت ہے یہاں تک کہ دوسرے صوبوں میں نظام عدل سے مایوس افراد ریلیف کیلئے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے آئے ہیں،جاری حالات میں سپریم کورٹ میں اس طرح کے افراد کی تقرری خود حالات اور وقت کا تقاضا ہے جس سے قطع نظر انصاف اور میرٹ کا تقاضا سب سے اہم ہونا چاہئے، عدلیہ جس مقام پر کھڑی ہے اس میں اس کا اتحاد اور ہرقیمت پر انصاف ہی اسے اس مقام پر سرخروکر سکتا ہے اور آئندہ کیلئے اس طرح کی شکایات کے تدارک کی کنجی بھی خود عدلیہ اور ججوں کے پاس ہے کہ وہ بروقت پوری قوت سے کھڑے ہوں اور بعد میں واویلا کرنے کی بجائے گربہ کشتن روز اول کا مظاہرہ کرنے کا وتیرہ اختیار کریں۔

مزید پڑھیں:  سرکاری ریسٹ ہائوسز میں مفت رہائش