اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی ”معراج”

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے سفر میں کسی قسم کا عدم استحکام برداشت نہیں کیا جائے گا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈہ اور ٹرولنگ کام کرنے سے نہیں روک سکتے۔ اسلام آباد میں پاکستان انیشی ایٹو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام اور فوج ملک کی ترقی و سلامتی کیلئے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ معاشی استحکام کے بغیر مکمل خودمختاری کا تصور ناممکن ہے۔ ترقی کیلئے متحد ہونا پڑے گا، رخنہ ڈالنے والے ناکام ہوں گے، عوام منفی قوتوں کو مسترد کردیں گے۔ کانفرنس سے متعدد وفاقی وزراء نے بھی خطاب کیا۔ حالیہ دنوں میں بعض سیاسی شخصیات اور بالخصوص خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بیانات سے پیدا شدہ صورتحال میں آرمی چیف کا بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان ایسے ملک میں جہاں فیصلہ سازی میں متعدد فریق شریک رہتے ہوں آرمی چیف کا سیاسی نوعیت کا بیان نئی بات ہرگز نہیں بدقسمتی سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بعض شخصیات کیخلاف تواتر کیساتھ سخت بیانات دینے والی سیاسی شخصیات کے اپنے دور میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کا کورم تک پورا کرنے کیلئے خفیہ ایجنسیوں کی مدد لی جاتی رہی،یہی نہیں بلکہ ان شخصیات کی جماعت کو 2018ء میں ملنے والا اقتدار بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ہی مرہون منت تھا ،اب اسی جماعت اور اس کے سرکردہ رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مددسے ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔
بادی النظر میں تو جو کام 2018ء میں ملکی استحکام اور جمہوریت کی بقاء کیساتھ کرپٹ ٹولے کیلئے احتساب کیلئے حب الوطنی کی معراج قرار پایا تھا، حالیہ الیکشن کے بعد مبینہ طور پر ویسا کام عوام دشمنی قرار دیا جارہا ہے۔ تندوتیز بیانات اسمبلیوں اور حکومت کو نہ چلنے دینے کی دھمکیوں سے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ تو ہوہی رہا ہے رہی سہی کسر خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے اس بیان نے پوری کردی کہ ہم اسلام آباد پر قبضہ کرکے حکومت گرائیں گے اور اپنی جماعت کے بانی کو جیل سے چھڑاکر لے جائیں گے۔ ان بیانات اور منفی رویوں ہر دو پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سابق حکمران جماعت اپنی سیاست کیلئے ”کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے” کے اصول پرعمل کا فیصلہ کرچکی ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا اپنی اپنی ضرورتوں اور اقتدار کیلئے ہر ہتھکنڈہ اور راستہ درست ہے؟ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لْولے لنگڑے جمہوری نظام کے استحکام اوراسے آگے بڑھانے کیلئے جس سنجیدگی، تدبر اور تحمل کی ضرورت ہے اس سے صرف نظر کیا جارہا ہے۔ محاذ آرائی کی سیاست کو منفعت بخش سمجھ لیا گیا ہے۔ ان حالات میں ملکی اداروں میں تشویش کا پایا جانا غلط ہرگز نہیں۔ ثانیاً یہ کہ یہ رویہ غیرجمہوری قوتوں کو اپنی حدود سے تجاوز کرنے کا راستہ دیکھاتا ہے اس پر ستم یہ ہے کہ ایک طرف تو سابق حکمران جماعت کے بانی اور سرکردہ رہنمائوں میں سخت بیانات جاری کرنے کا مقابلہ جاری ہے یہاں تک کہ گزشتہ دنوں اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ساقب وزیراعظم عمران خان نے اپنی اہلیہ کی بیماری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو وہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ اور چند دیگر لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے، یہ اور اس طرح کے دوسرے بیانات کی وجہ سے گزشتہ روز ان کیخلاف سماعت کرنیوالی عدالت نے سابق وزیراعظم، ان کی اہلیہ اور خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ عدالتی سماعت کا حصہ بننے والے افراد پر ریاستی اداروں اور ان کے ذمہ داران کے خلاف بیان بازی پر پابندی لگادی۔
ایک جانب یہ صورت ہے اور دوسری طرف سابق وزیراعظم کے ایک دست راست اور سابق وفاقی وزیر شہریار خان آفریدی نے گزشتہ روز کہا کہ ان کی جماعت مذاکرات کیلئے تیار ہے لیکن مذاکرات صرف آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف سے ہوں گے۔ پچھلے دو سالوں سے سابق اور موجودہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو آڑے ہاتھوں لینے والی جماعت سیاسی جماعتوں کی بجائے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی ”معراج” ہے۔ گو اس سے قبل سابق حکمران جماعت نے ہر قدم پر اپنے پچھلے مؤقف کے برعکس مؤقف اپنایا اور پھر اگلے ہی روز اس سے بھی رجوع کرلیا مگر فی الوقت اس جماعت کی اہم شخصیت کا آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ سے مذاکرات پر آمادگی دلچسپ بات ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس نئے بیان پر پی ٹی آئی قائم رہتی ہے یا شیر افضل مروت کے سعودی عرب کیخلاف دیئے گئے بیان کو ذاتی مؤقف قرار دینے کی طرح شہریار آفریدی کے بیان کو بھی ذاتی خواہش قرار دیتی ہے؟ جو بھی صورت ہو ایک بات طے ہے کہ سیاسی جماعتیں جب تک ایک دوسرے کیساتھ مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوتیں کسی بہتری کا در آنا ممکن نہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حکومت پی ٹی آئی رہنمائوں کیخلاف مقدمات واپس لیکر انہیں رہا کرے تو اس پر یہ دریافت کیا جانا ضروری ہے کہ کیا خود پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی مخالفین کیخلاف قائم بوگس مقدمات واپس لئے تھے؟ ہماری دانست میں ان مقدمات کے حوالے سے حکومت کو ایک کام ضرور کرنا چاہیے وہ یہ کہ پہلے مرحلہ پر کرپشن کے مقدمات کی بجائے دیگر مقدمات بالخصوص9 مئی کے واقعات کے بعد درج ہوئے مقدمات کا ضرور ازسرنو جائزہ لیا جانا چاہیے اور یہ دیکھا جانا چاہیے کہ ان میں سے کتنے مقدمات حقیقت پر مبنی ہیں اور کتنے محض خانہ پْری کا حصہ۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے خاتمے میں جتنی تاخیر ہوگی ملک ، جمہوریت اور معیشت کو اتنا ہی نقصان ہوگا اس لئے پی ٹی آئی کو بھی سنجیدہ سیاسی جماعت کا کردار اپنانا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے مفادات کا کسی کو خیال بھی ہے