نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی

اخباری اطلاعات کے مطابق یکم جولائی کے بعد قبائلی علاقہ جات اور ملاکنڈ ڈویژن میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے استعمال پرپابندی عاید کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے ذرائع کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی اضلاع میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی تعداد دس لاکھ سے زائد شمار کی گئی ہے جن میں سے چھ لاکھ سے زائد ملاکنڈ ڈویژن جبکہ قبائلی اضلاع میں انگاڑیوں کی تعداد چار لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے اس سلسلے میں قبائلی اضلاع میں رجسٹریشن کاعمل چند روز تک مکمل کرایا جائے گا جبکہ ایف بی آر ، محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور کیپرا سمیت ٹیکسز وصول کرنے والے تمام اداروں کے اختیارات کا دائرہ کار یکم جولائی سے قبائلی اضلاع اورملاکنڈڈویژن تک وسیع کیا جارہا ہے ممکنہ طور پر ان علاقوں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے استعمال پر پابندی کے بعد تمام بارگین بند کئے جائیں گے امرواقع یہ ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن میں شامل سوات ، دیر اور چترال کی ریاستوں کے ادغام کے بعد ان علاقوں کو ابتدائی طور پر دس سال کے لئے ہر قسم کے ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیاگیاتھا جبکہ قبائلی علاقے بھی انہی رعایتوں کی حقدار تھیں تاہم جب یہ مدت ختم ہوگئی تو ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکسوں کی ادائیگی پر اعتراض اٹھانے لگے اور پسماندہ ہونے کی وہ سے وہاں ٹیکسوں کی ادائیگی پر احتجاج کیا گیا اس طرح مزید کچھ مدت کی توسیع سے ٹیکس ادائیگی روک دی گئی اس دوران ان علاقوں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بہتات کی وجہ سے ملک میں ٹیکس کے نظام پر اثرات مرتب کئے اسی طرح قبائلی اضلاع میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا ہو ئی جبکہ حکومتی خزانے کو سالانہ کروڑوں روپوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ، اب جبکہ ملکی معیشت مشکلات سے دو چار ہے ٹیکس نافذ کرنے والے اداروں نے ان علاقوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اگر ان مبینہ دس لاکھ گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹوکن ٹیکس کی زد میں لایا گیا تو ممکن ہے کہ قومی خزانے کو بہت فائدہ ہو ، بہرحال یہ ایک حساس معاملہ ہے اور اسے تدبیر کے ساتھ سلجھانے کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں