حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سردار علی امین خان گنڈاپور نے صوبے کے آئینی اور قانونی حقوق پر سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے صحافی برادری سے کہا ہے کہ وہ صوبے کے حقوق کی جدوجہد میں صوبائی حکومت کا ساتھ دیں ۔اُنہوںنے کہاکہ یہ صوبہ ہم سب کا ہے اور ہم سب نے مل کر اس کی ترقی کیلئے کام کرنا ہے اور صوبہ تب ہی ترقی کرے گا جب وفاق سے صوبے کو اس کے جائز حقوق مل جائیں گے ۔وزیر اعلی خیبر پختونخوا اس بارے میں بڑے عزائم کا اعادہ کرتے آئے ہیں لیکن ان پر عمل اور اس کے لیے کوششوں سے کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ وقت بتائے گا۔خیبرپختونخوا کے اپنے وسائل سے آمدن 70 ارب روپے کے لگ بھگ ہے جو صوبے کے کل وسائل کا آٹھ فیصد ہی بنتا ہے جو بہت کم ہے ۔ خیبرپختونخوا کا نیٹ ہائیڈل پاور پر منافع اور آئل اینڈ گیس پر صوبے کا حق وفاق کے ذمہ واجب الادا ہے لیکن وفاق کی جانب سے صوبے کو اس کے فنڈز نہیں مل رہے جس وجہ سے صوبہ مالی مشکلات کا شکار ہے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے عہدہ سنبھالنے کے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وفاق کے ذمہ1510ارب روپے واجب الادا ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم اے جی این قاضی فارمولے کے تحت ہے جس پر وفاق میں رضامندی ظاہر کی گئی تھی۔ صوبے کے وفاق کے ذمہ واجب الادا فنڈز جن کو دونوں جانب سے تسلیم کیا گیا، ان میں نگران حکومت نے جو وفاق کو آخری مراسلہ بھیجا تھا اس میں 360 ارب روپے کا ذکر کیا گیا، جس میں پن بجلی منافع اور قبائلی علاقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز شامل ہیں۔وزیر اعلیٰ نے جو اعداد و شمار فراہم کیے تھے وہ صوبے کا مطالبہ ہے لیکن ان پر دونوں جانب سے مکمل رضا مندی نہیں اور جس پر رضا مندی ہے وہ 400ارب روپے سے415ارب روپے تک رقم بنتی ہے جو وفاق نے صوبے کو ادا کرنے ہیں۔اس وقت صوبے کی حکومت کو کئی بڑی چیلنجوں کا سامنا ہے صرف عوام کی حالت زار میں بہتری لانے کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا حکومت کو دہشتگردی کیخلاف اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ ملازمین کی تنخواہیں، صحت انصاف کارڈ کی مد میں واجب الادا رقم اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے جیسے وعدوں کی تکمیل کے فنڈز درکار ہوں گے۔یونیورسٹیوں کو مالی بحران سے نکالنے کے علاوہ روزگار فراہم کرنے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ہم سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے حقوق کے حصول اور مرکز سے مالی تعاون کے حصول کے لئے دونوں حکومتوں کے درمیان کم از کم تعلقات کار کا ہونا ضروری ہے جس کا اگر وزیر اعلیٰ کے حکومتی فرائض کی ادائیگی کے مطابق تعاون کے تناظر میں جائزہ لیاجائے تو زیادہ برے نہیں لیکن اگر ان کے سیاسی بیانات کے تناظر میں جائزہ لیاجائے نیز خیبر پختونخوا میں حزب اختلاف اور حکومتی تعامل کا جائزہ لیاجائے تو حالات ساز گار نظر نہیں آتے ہر اہم صورتحال پر ماحول کا اثر انداز ہونا فطری امر ہوتا ہے اور سیاسی تعامل و حزب اختلاف کی بھی آواز حکومتی آواز و مطالبات میں شامل کئے بغیر مثبت کی توقع مشکل نظر آتا ہے ماضی میں صوبے کی متحدہ آواز اور سیاسی جماعتوں کی اس نکتے کی حد تک کم از کم سو فیصد ہم آہنگی رہی ہے لیکن ہم آواز ہونے کے باوجود بھی خواہ مخالف سیاسی جماعت مرکز کی حکمران رہی یاپھر خود تحریک انصاف کے صوبے کے حوالے سے رویہ میں زیادہ فرق نہیں رہا۔ ان حالات میں کوشش یہ ہونی چاہئے کہ مرکزی اور صوبائی حکومت کے درمیان فاصلے کم اور کم از کم آئینی و قانونی و مالیاتی امور میں مروجہ تعلقات اور طریقہ کار کی پیروی ہو۔ اس بارے دو رائے نہیں کہ مہنگائی اور سیلاب نے صوبے کے لوگوں کو خط غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے ایسے میںصوبے کا حقوق کی ادائیگی کا مطالبہ بالکل برحق ہے وفاق سے قبائلی اضلاع کے بجٹ کاخسارہ اوردیگر بقایاجات کی بھی فوری طور پرادائیگی کا مطالبہ صرف صوبائی حکومت کا مطالبہ ہی نہیں یہ حزب اختلاف کا بھی مطالبہ ہونا چاہئے یہ بھی کافی نہیں پورے صوبے کے عوام کا مشترکہ و متفقہ مطالبہ ہے دوسری جانب مشکل امر یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے فیڈرل فنڈز کی ٹرانسفر میں کمی ، پن بجلی منافع کی ادائیگی روکنے اور ضم شدہ اضلاع کے فنڈز سے کٹوتی کرنے سمیت سیلاب کی وجہ سے خیبر پختونخوا حکومت کو رواں مالی سال کے دوران 275 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا کرنے کا امکان ہے ۔ اس کے باوجود وفاقی حکومت نے پن بجلی منافع اور ضم شدہ اضلاع کیلئے فنڈز جاری نہیں کئے ایف بی آر کو ٹیکس وصولیوں کے اہداف پورے کرنے میں مشکلات کی وجہ سے خیبر پختونخوا کو رواں مالی سال کے دوران وفاق سے فیڈرل ٹرانسفرز کی مد میں 65ارب روپے کم ملنے کا خدشہ ہے ۔خدانخواستہ یہ خدشہ درست ثابت ہوا تو اس سے صوبے کے مسائل میں اضافہ ہو گا جس کی نوبت نہیں آنے دی جانی چاہئے۔یہ درست ہے کہ وفاقی حکومت کو بھی مالی مشکلات کاسامنا ہے لیکن اس کے باوجود کم از کم وفاق سے یہ توقع ضرور کی جا سکتی ہے کہ وہ صوبے کے وسائل اور حقوق و حصے کے ضمن میں مثبت طرز عمل اپنائے اور کم از کم صوبے کے حصے کی رقم اور وسائل کی ادائیگی و فراہمی میں کوئی کٹوتی نہ کرے اور نہ ہی صوبے پر کوئی ایسا بوجھ ڈالا جائے جس کا صوبہ متحمل نہ ہو سکے ۔

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں