سیاست اپنی جگہ صوبے کا مفاد مقدم

خیبرپختونخوا میں گورنر کی تبدیلی اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی شراکت اقتدار پر رضامند ی کے بعد اب خیبرپختونخوا میں سینٹ کے انتخابات ہی اہم آ ئینہ اور سیاسی عمل باقی رہ گیا ہے، ڈیرہ اسماعیل خان ہی سے وزیر اعلیٰ اور ان کے ماضی قریب کے سیاسی حریف کا اب ایک ہی صف میں آ مد اور مقا بلے میں ایک اور حریف کا بطور گورنر خیبر پختونخوا تقرر جہاں دلچسپ صف بندی نظر آ تی ہے وہاں اس کے اثرات صوبے کے حوالے سے مرکزی حکومت کی سوچ اور ممکنہ حکمت عملی کا بھی عندیہ ملتا ہے، پیپلز پارٹی کی جانب سے جے یوآئی کی قیادت کو اس تقرری سے خداحافظ کا پیغام دیا گیا ہے یا پھر آ خری رابطہ بھی نہ رہا ،ہر دو صورت حال کسی حد تک واضح ہے اس سے قطع نظر دیکھا جائے تو اس تقرری کے بعد حلف برداری کی تقریب میں وزیر اعلیٰ کی عدم شرکت یا کم از کم ان کی نمائندگی کا بھی نہ ہونا نیز اس حوالے سے ان کا بیان سیاسی طور پر ہی نہیں صوبہ مرکز تعلقات اور رواداری کا مظاہرہ نہیں بلکہ اس امر کا واضح اظہار بھی ہے کہ صوبائی حکومت اور گورنر ہاؤس کے تعلقات کچھ خوش گوار نہیں رہیں گے ،تاہم گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے اور مسائل کے حل کیلئے کہیں بھی جانے پر آ مادگی کا اظہار اچھی ابتداء ضرور نظر آ تا ہے، تاہم اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کہیں دیرینہ رقابت غالب نہ آئے، اس بات کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ سیاسی طور پر اب تک پوری طرح فعال گورنر خیبر پختونخوا کریز سے باہر نکل کر بھی کھیل کے گر جانتے ہوں گے بلکہ اگر دیکھا جائے تو ان کی تقرری ہی جب تک ممکن ہو مفاہمت کی جائے اور جب حالات کی عدم موافقت افادہ مختتم پہ پہنچ جائیں تو پھر کریز سے باہر نکل کر سٹروک کھیلنے سے گریز نہ کیا جائے ،بہرحال سیاست کی بدلتی دنیا میں کوئی حتمی پیش گوئی ممکن نہیں، فی الوقت کی گھنگھور گھٹاؤں کا رخ خیبرپختونخوا کے آ سمانوں کی طرف متوجہ نظر آ تا ہے۔سیاسی اور حکومتی کشمکش میں فریقین معاملہ کی صوابدید اور صف بندی عوامی معاملات پر اثرانداز نہ ہوتے تو اکھاڑے کے باہر سے بھی نظارے کا لطف لینے کی گنجائش تھی مگر یہاں تو ہاتھیوں میں لڑائی تو درکنار ہم آ ہنگی نہ ہو نے کا خمیازہ بھی عوام اور صوبے کو بھگتنا پڑے گا ،مستزاد ایک ایسے وقت جب پہلے سے ہی مالیاتی معاملات کچھ تسلی بخش نہ ہو ں ،بنا بریں صوبے کا مفاد اس امر کا متقاضی ہے کہ چاہے کسی کی صورت پسند ہو یا نہ ہو حکومتی معاملات میں خواستہ و نا خواستہ تعامل اور تعاون کی راہ اختیار کئے بنا چارہ نہیں، اس وقت بھی حسب سابق صوبائی حقوق اور واجبات کا مسئلہ سر فہرست ہے جو نہ صرف مرکز اور صوبے میں ناآ راستہ حالات میں رہی ہوتی ہیں بلکہ خود تحریک انصاف کی یک جماعتی حکومت میں بھی قدرے بہتر ی کی طرف نہ جاسکیں ،اب تو بعد المشرقین کا عالم ہے اور توقعا ت کی بجائے خدشات کا راج ہے، ایسے میں ذرا سی تیز ہوا چلتی ہے تو پھر صوبہ کو اہم منصوبوں اور فلاحی کاموں ہی کو جاری رکھنے میں ہی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور حکومتی اخراجات میں بھی مشکلات سے دو چار ہو نے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، بنا بریں صوبائی حکومت کو سیاست و قیادت کا خیال رکھنے کیساتھ ساتھ عوامی مفادات کی بھی پاسداری کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوگی جو محاذ آ رائی کے برعکس طرزِ عمل اختیار کر کے ہی ممکن ہوسکے گی۔محاذ آ رائی سے گریز صرف صوبائی حکومت ہی کی زمہ داری نہیں بلکہ گورنر ہاؤس کو بھی صوبے کے عوام کے مفادات کے حصول میں کردار ادا کرنے کی ذمہ داری میں بخل کی بجائے اپنے قد کے مطابق صوبے کے عوام کے مفادات کے تحفظ اور حصول کی راہ اختیار کر نا ہو گی، یہاں تک کہ اگر انا کی قربانی کی ضرورت بھی پڑے تو بھی اس سے گریز نہ کرنا ہوگا، اختلافات سیاسی اور حکومتی ہوں اور خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا کہلائے گی، توقع کی جانی چاہیے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی روایات کا خیال رکھتے ہوئے سیاسی جغادری اور حکمران کم سے کم بھی ہو تو حکومتی معاملات خوش اسلوبی سے چلانے کی راہ اختیار کریں گے اور صوبے کے مفادات اور حقوق کے حصول کو سیاست سے بالاتر رکھنے کی راہ اپنائی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں