آپریشن ۔۔”سہاڈی بس اے”

ملک عزیز میں سیاسی مشقیں جاری رہتی ہیںایک سیاسی گروپ کو حکومت دے کر اس کا امتحان لیا جاتاہے اور اگر معیار پر پورا نہ اترے تو اس سیاسی گروپ کو ہٹاکر دوسرے گروپ کو موقع دیا جاتاہے۔ جس بھی سیاسی گروپ کو موقع فراہم کیا جاتاہے تو وہ بڑھ چڑھ کر موقع دینے والوں کی تعریفیں کرتے صبح سے شام کرتے ہیں اور شام سے پھر صبح کرتے ہیں تاہم نہ ان کی زبانیں تھکتی ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا تبدیل ہوتاہے لیکن جیسے ہی ان سے اقتدار لے کر ان کے مخالف دھڑے کو دیا جاتاہے تو پھر انہیں حکومت اور انتظامیہ میں خامیاں ہی خامیاں نظر آتی ہیں پھر انہیں عوام کے پاس جانے کا بھی شوق چراتاہے کوئی ”ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ لگاتے عوام کو بھڑکاتا ہے تو کئی ”فارم45اور47کا رونا روتے ہوئے پاکستان کی سادہ لوح عوام کو جگانے کے بہانے گمراہ کررہے ہیں۔ یہ ہی سیاسی گروپ یا گروہ یا پارٹیاں عوام کے خون پسینے کے پیسے کو ایسے کھاجاتے ہیں کہ شیر مادر ہواور پھر ڈکار بھی نہیں لیتے انہی کی اجازت سے عوام پر ظلم ہوتاہے کبھی ایک طرح کا آپریشن تو کبھی دوسرے نام سے آپریشن کرکے عوام کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی ہے۔ اگر ان کے مفادات میں ہوتو امریکہ کی بین بجاتے ہیں اور ان کو کوئی فائدہ نہ ہوتو ایبسلوٹلی ناٹ کانعرہ لگاکر ہر کام میں روڑے اٹکانے کے طریقے انہیں بخوبی آتے ہیں۔ جب یہ پارٹیاں اکٹھی بھی ہوتی ہیں تو اپنے مفادات کے لئے پھر سارے اختلافات بھلا کر ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ اور پھر ملک کی سلامتی کے اداروں کے خلاف بولنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز گاہے بگاہے آپریشن کرکے ملک میں دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ اب کی بار ان کا نشانہ دہشت گردوں کو ملنے والی بھاری رقوم کا قلع قمع کرناہے جو کہ ملک عزیزمیں بے دریغ سمگلنگ اور منشیات فروشی کے زریعے انہیں مل رہاہے۔
سمگلنگ اور منشیات کا پیسہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال ہورہا ہے اور یہ سب کچھ دہشت گرد عناصر کے زریعے ہی کیا جارہاہے ۔ ملکی سلامتی کو محفوظ کرنے کیلئے ٹی ٹی پی اور ان کے نیٹ ورک کے خاتمے کے لئے اور ٹی ٹی پی کی فنڈنگ کے سارے زرائع کو ختم کرنا بھی سیکیورٹی فورسز کی زمہ داری ہے۔ یہ آپریش عزم استحکام ٹی ٹی پی کو ملنے والی امداد کو قطع کرنا ہے اور ان کے پیچھے زرائع کو بھی ختم کرناہے ۔ پاکستانی طالبان یا افغانستانی طالبان کا وہ اتحاد نہیں رہا یا یوں کہا جائے کہ ان کا مرکز ایک نہیں بلکہ کئی ہوچکے ہیں طالبان تنظیمیں ماضی میں بھی بٹتی رہی ہیں اور اب طالبان مزید بٹ چکے ہیں ۔ جسے عرف عام میں کہا جائے کہ اب ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے لہٰذا طالبان یا ان کے کسی بھی گروپ کو دوبارہ سے اٹھنے نہ دینے اور انہیں عمر بھر کے لئے نیست و نابود رکرنے کیلئے اب آخری آخری آپریشن ناگزیر ہیں تاہم یہ یاد رہے کہ کوئی بھی فوجی آپریشن عوام کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے ۔ اب سے پہلے جتنے بھی آپریشن ہوئے ہیں اس میں صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام بری طرح متاثر ہوئے ہیں ان کی چادر اور چاردیواری بری طرح پامال ہوئی ہے اور اس سب کے بعد ان کے علاقہ میں یا ان کے نوجوانوں کو کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں ملی۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیر اعظم نے بات کی کہ صوبہ خیبرپختونخواکو 590 ارب ڈالر دیئے گئے کہ وہ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ادارہ بنائے مگر اس پر کچھ کام نہیں ہوا۔ ہماری تو التجاء ہے کہ خدارا اس رقم کا پتا کروائیں کہ یہ کہاں گئی کیونکہ اگر یہ رقم ہمارے صوبہ میں کہیں استعمال کی گئی ہوتی تو کہیں تو نظر آنی چاہئے تھی ۔خیبر پختونخوا کی تقریباً ساری سیاسی جماعتوں بلکہ سماجی تنظیمیں بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اب یہ صوبہ کسی بھی قسم کے مزید آپریشن کا متحمل نہیں غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری نے صوبہ کے عوام کی کمر توڑ کررکھ دی ہے اور اب ہر باشندے کے دل سے ایک ہی صدا نکل رہی ہے کہ ”ہونڈ ساڈی بس اے”۔ اب ہم میں ہمت ہے اور نہ ہی مالی طور پر ہم اس قسم کے کسی امتحان میں جانے لئے تیار ہے۔ سکیورٹی اداروں نے عوام کو یہ اطمنان دلا یا ہے کہ آپریشن عزم استحکام میں کوئی آپریشن نہیں ہوگا اور نہ ہی لوگوں کو گھروں سے بے گھر کیا جارہاہے ۔ میڈیا یا سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں ۔ صرف خوارج کے خلاف کارگزاری ہوگی کیونکہ دہشت گرد خوارج ہیں لہٰذا ان کا ملکی سلامتی کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں انہیں نیست و نابود کرنا ملک کی سیکیورٹی فورسز کی زمہ داری ہے۔جبکہ پاکستان کے سادہ لوح عوام کو میڈیا کے زریعے غلط تاثر دیا جارہاہے اور عوام میں پریشانی پھیلائی جارہی ہے ۔ عوام کواس پراپیگنڈے میں نہیں آنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ابابیل فورس کی ناکامی