ٹیکس،ٹیکس اور صرف ٹیکس

وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، زندگی کے ہر شعبے میں عوام پر ٹیکس لگانے سے ہی اپنے معاملات چلانے اور آگے بڑھانے کی حکمت عملی کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے کے بارے میں ان کے ہاں سوچ ابھرتی ہی نہیں، دنیا بھر میں حکومتیںاشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کیلئے عوام کو ریلیف دینے کے بنیادی فلسفے کے طور پر اپناتی ہیں اور اگر انہیں کوئی سبسڈی نہیں بھی دیتیں تو بھی کم از کم ان اشیاء پر کوئی ناجائز ٹیکس عاید کر کے عوام پر مہنگائی مسلط نہیں کرتیں، مگر ہمارے ہاں صورتحال اس کے بالکل الٹ دکھائی دیتی ہے اور زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی اشیائے خوردو نوش پر بھی بے پناہ ٹیکس لاگو کر کے عوام کیلئے پریشانیوں میں اضافہ کرنا تقریبا ًہر حکومت کا وتیرہ رہا ہے، تازہ ترین خبر کے مطابق افغانستان سے سبزیوں اور پھلوں کی درآمد میں کمی کا معاملہ سامنے آیا ہے جبکہ مختلف سبزیاں ٹماٹر، پیاز جو افغانستان سے درآمد کر کے مناسب داموں پر عوام کو مہیا کرنے کی بجائے فروٹ جن میں انگور، انار، تربوز وغیرہ شامل ہیں پر بھی فی کنٹینر ٹیکس میں اضافہ کر کے ان تک عوام کی پہنچ کو متاثر کیا جا رہا ہے، فی کنٹینر ہزاروں روپے اضافی ٹیکس کی وجہ سے ان اشیاء کی درآمد متاثر ہو رہی ہے، اس حوالے سے تین سے پانچ گنا اضافے سے سبزیوں اور پھلوں کی افغانستان سے درآمدات بری طرح متاثر ہو گئی ہیں، اور اب یہ اشیاء بہت کم مقدار میں درآمد ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں بلکہ درآمدات میں کمی کی وجہ سے تاجر اور مزدور بھی پریشان ہیں اور ان کے کاروبار اور مزدوری میں کمی جبکہ عوام کو اب یہ اشیاء بہت مہنگی مل رہی ہیں، یہ صورتحال عوامی نقطہ نظر سے منفی طرز فکر کی نشاندہی کر رہی ہے، عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں، اوپر سے بنیادی ضرورت کی اشیاء پر کئی گنا ٹیکس لگا کر انہیں عذاب سے دوچار کرنا یقینا زیادتی ہے ،اس صورتحال پر نظر ثانی لازمی ہے۔

مزید پڑھیں:  احتساب و بعداز احتساب