تباہ کن بجلی معاہدے

بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پیدا ہونیوالی صورتحال سے عوام پر مسلط ہونیوالے عذاب کا منبع آئی پی پیز کیساتھ کئے جانیوالے وہ شرمناک معاہدے ہیں جن کی حقیقت اب عوام اچھی طرح جان چکے ہیں اور ان معاہدوں کی کوکھ سے جنم لینے والی مشکلات کے بارے میں مختلف سیاسی اور دیگر شعبوں کے اہم کردار بھی کھل کر بولنے لگے ہیں ،سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی بالآخر زبان کھول کر کہہ دیا ہے کہ بجلی کا بل ہر ایک کیلئے مصیبت بن چکا ہے ،جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ائی پی پیز معاہدوں کی تفصیلات قوم کے سامنے لانا ہوں گی ،سرحد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری ایگزیکٹو کمیٹی نے صدر چیمبر فواد اسحاق کی صدارت میں منعقدہ ایک اجلاس میں آئی پی پیز معاہدے کو معیشت کیلئے تباہ کن قرار دیا ہے، سابق نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کیپیسٹی پیمنٹس کا ڈیٹا شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ تین ماہ میں آئی پی پیز کو 450 ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں، انہوں نے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے وہ بہت ہی چشم کشا اور تشویشناک ہیں ،ان کے دعوے کے مطابق نجی بجلی گھروں میں سے آدھے 10 فیصد سے بھی کم استعداد پر چل رہے ہیں جبکہ رقم پوری استعداد کی وصول کر رہے ہیں،4 پاور پلانٹس بجلی پیدا کئے بغیر 10 ارب روپے ماہانہ وصول کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کے پیسے پر کاروبار نہ کرے، ادھر ایک اور خبر کے مطابق حکومت نے بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے موجودہ پاور پرچیز ایگریمنٹ (پی پی اے) کا جائزہ لینے کیلئے وزیر توانائی سردار اویس لغاری کی سربراہی میں ایک بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو آئی پی پیز کے معاہدوں کا جائزہ لیکر ان پر نظر ثانی کے حوالے سے سفارشات مرتب کرے گی، امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک آئی پی پیز کیساتھ معاہدوں کا تعلق ہے اس حوالے سے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور ان سوالات کا سرکار کی جانب سے کوئی جواب آج تک پہلے تو دیا ہی نہیں گیا اور اگر ایک آدھ بیان اس حوالے سے سرکاری حلقوں کی جانب سے دیا بھی گیا تو وہ اس قدر مبہم تھا کہ صحیح صورتحال کا اندازہ لگانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ جو کھوجی اندر کی بات کسی نہ کسی طور نکال کر باہر لائے ہیں تو اس سے اصل معاملات کا( غیر مصدقہ ہی سہی) پتہ چلتا ہے، یعنی ان معاہدوں میں جو حکومت کیلئے سراسر گھاٹے کا سودا قرار دیئے جاتے ہیں چھپے بعض حقائق ایسے ہیں کہ کسی بھی دور میں ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی، اب یہی دیکھ لیجئے کہ وزیر توانائی نے بھی ابھی حالیہ دنوں میں یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کئے تھے کہ ان معاہدوں کو چھیڑنے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور جب ایک انچارج وزیر جو خود ہی (بوجوہ) ان معاہدوں کے حوالے سے تذبذب یا دو عملی کا شکار ہو تو اس کی سربراہی میں قائم ہونیوالی جائزہ کمیٹی عوام کے مفادات کا کیا تحفظ کر سکے گی؟، شنید یہ ہے کہ ان معاہدوں میں زیادہ تر کے مالکان پاکستان کے اپنے سرمایہ کار ہیں جن کیساتھ ایسی شرائط پر معاہدے کیے گئے ہیں جن میں فیول کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے، اب اگر حکومت ہی بجلی پیداکرنے کیلئے ضروری فیول مہیا نہیں کرے گی تو مقررہ کپیسٹی کے مطابق بجلی کی فراہمی کیلئے متعلقہ آئی پی پیز کو کسی بھی صورت مجبور کیا جا سکتا ہے نہ ہی جتنی مقدار میں بجلی پیدا کی جاتی ہے ادائیگی صرف اتنے ہی یونٹ تک محدود کی جا سکتی ہے، بلکہ پوری اور معاہدے کے مطابق کپیسٹی کے مطابق ہی ادائیگی کی جائے گی، جس سے نہ صرف یہ کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی آئے گی نہ ہی مقررہ ادائیگی سے کم پر آئی پی پیز راضی ہوں گے، بلکہ ان کیلئے تو یہ ایک بہترین منافع بخش صورتحال ہے کہ بجلی پیدا کئے بغیر یا کم مقدار میں بجلی مہیا کرنے کے باوجود پوری رقم وصول کریں، سابق نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز نے انہی سقوم کی جانب توجہ دلاتے ہوئے گزشتہ تین ماہ کے دوران آئی پی پیز کو ادا کی جانیوالی رقم اور نجی بجلی گھروں کی کم استعداد کے بارے میں حقائق سے پردہ اٹھایا ہے، اور یہ تمام ادائیگیاں عوام کی جیبوں سے نکالنے کیلئے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے جبکہ لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہی ہو رہا ہے، اب ان عوامی نکتہ نظر سے” ظالمانہ ” معاہدوں میں کون کون فائدہ اٹھا رہا ہے، اور وہ کون ہیں جو ان پر نظر ثانی کی راہ میں مزاحم ہو سکتے ہیں جبکہ جو لوگ ان معاہدوں کو ملکی مفادات کے برعکس ہونے کے باوجود ملکی معیشت پر تھوپ چکے ہیں ان کے بارے میں بھی حقائق سامنے لانا ضروری ہیں، اور ان سے جان چھڑانے کی سنجیدہ کوششیں بھی لازمی ہیں تاکہ عوام پر پڑنے والی افتاد کا خاتمہ ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  مسئلہ بلوچستان اور حل