جامعاتی تحقیق میں افکار ِ تازہ کی ضرورت

مْلک کی مختلف درسگاہوں میں تعینات اپنے دوست اساتذہ کرام سے مسلسل نشست رہتی ہے۔ دیگر موضوعات کے علاوہ تعلیم و تحقیق پہ ضرور بات کرتے ہیں۔ وہ تعلیمی معیار سے مطمئن نہیں اور اس حوالہ سے اپنے آپ کو بھی بری الذمہ نہیں سمجھتے کہ پاکستانی جامعات تحقیق کے میدان میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کر پائیں۔ اْن کا یہ ماننا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سے قبل جامعات میں ہونے والی تحقیق کسی جدت اور عالمی معیار کے اعتبار سے ناگفتہ حد تک مایوس کن تھی۔ کمیشن کے قیام کے بعد پہلی بار ہمارے ہاں جاری تحقیق کو عالمی معیار کی روشنی میں جب جانچا جانے لگا تو کوئی قابل رشک نتیجہ نہیں نکلا بلکہ اس دوران بوجوہ ایسی روایات بھی قائم نہ ہو سکیں جو کسی طور قابل اطمینان ہوں۔ فکر و نظر میں پائی جانیوالی وسعت اور ندرت کسی بھی قوم کے ارتقا کے لازمی اجزاء ہیں۔ ایسی فکر انگیزی یقینا ایک قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ہوا کرتی ہے ، جس کیلئے ایسا فکری اور علمی ماحول درکار ہوتا ہے جو قوم کے افراد اور خاص کر آنیوالی نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دے سکے۔ پوری دنیا میں یہ فریضہ جامعات کے سپرد سمجھا جاتا ہے۔ جہاں تحقیق و تجسس کی آبیاری کیساتھ ساتھ انہیں مطلوبہ سمت دکھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اپنے دوست اساتذہ کی باتیں سن کر ہمیشہ رنج ہوتا ہے بلکہ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ماضی میں ہماری درسگاہیں اس اہم فریضہ کی انجام دہی میں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں۔ پاکستانی جامعات میں تحقیقی مقالہ جات کے ریکارڈ کی روشنی میں یوں ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں سال 2005 کے بعد اعلیٰ سطح پر تحقیق کا رحجان بڑھنے لگا اور مقالہ جات کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا۔ یہ اعداد وشمار جہاں سست رفتار ترقی کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہاں مقالہ جات کے مو ضوعات کو دیکھ کر بھی بڑی مایوسی ہوتی ہے کہ ان مقالات کی غالب اکثریت کا قومی مسائل و معاشرتی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تمام مقالہ جات ہائر ایجوکیشن کمیشن کی عائد کردہ شرائط کے مطابق لکھے جاتے ہیں۔ کمیشن کے ایک سربراہ سے ملاقات کے دوران میں نے واضح کیا کہ تحقیقی شعبہ میں جدت اور تازہ کاری کا فقدان اس لئے بھی ہے کہ جامعات میں ساز گار ماحول نہیں جبکہ کمیشن نے کبھی مختلف شعبوں سے رابطہ نہیں کیا کہ درپیش مسائل کے حل ، قومی ضروریات اور محقق کی ذہنی استعداد کے مطابق عنوانات کا تعین کیا جا سکے، اور یہی تحقیق پھر مستقبل میں قومی سلامتی ، ترقی ، عوامی بہبود ، معاشی استحکام اور سائنسی و سماجی علوم کی پیش رفت کیلئے حکومتی پالیسیاں بنانے میں معاون ثابت ہو گی۔ وہ بھی دیگر شعبوں کے حکام کی طرح قواعد و ضوابط میں رہنے اور اپنی کرسی کا زیادہ خیال رکھنے میں مجبور دکھائی دئیے۔
پاکستانی جامعات میں تحقیق کے فقدان کی اس نوحہ خوانی کا سبب ان عوامل کی نشاندہی کرنا ہے جو نہ صرف تحقیق کے فقدان کا باعث ہیں بلکہ جو تھوڑی بہت تحقیق ہو رہی ہے اس کی ہمارے معاشرے کے مسائل سے بے اعتنائی اور لاتعلقی کا سبب بھی ہے۔ تحقیق سے وابستہ افراد اس کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں کہ تحقیقی ماحول بہت ساری شرائط کی تکمیل سے پیدا ہوتا ہے۔ میں اپنے مشاہدہ کے بعد یہ سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے تو طلبہ اور اساتذہ کا تحقیق کیلئے آمادہ ہونا بہت ضروری ہے۔ یہاں تازہ افکار اور فہم و فراست کی بجائے محض اپنی آسانی کی خاطر جو کچھ بھی ہو رہا ہے ، یہ صرف تحقیق برائے تحقیق ہے۔ طلبہ ڈگری کے حصول اور اساتذہ اگلے درجے میں ترقی پانے کیلئے تحقیقی مراحل اور کمیشن کی عائد کردہ شرائط طے کر رہے ہیں۔ ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے جسے کم وقت ، تھوڑے سے اخراجات اور کسی کوشش کے بغیر مکمل کیاجا سکے۔ اگرچہ جامعات میں اب تجربہ گاہوں ، کتب خانوں ، کمپیوٹر انٹر نیٹ کی آسانیاں میسر ہیں مگر تعلیمی پالیسی اور تحقیق کے مقاصد کا درست تعین کرنا ابھی تک جامعات کی ترجیہات میں شامل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے معنی تحقیق اور بعض اوقات اس کا نتیجہ تحقیقی سرقہ کی صورت نکلتا ہے۔ اب تو بہت سے اساتذہ اور محقق حضرات اپنے شاعر دوستوں پہ بھی کرم کرتے ہوئے اْ ن کی شاعری پر اعلیٰ سطح کی تحقیق کر رہے ہیں۔
ہماری جامعات کے معاشرتی روابط نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جامعات اپنے معاشرے میں معاشی استواری کو برقرار رکھنے کیلئے راہنمائی فراہم کرتی ہیںاور بہت سے ممالک میں ایسا ہو رہا ہے۔ اسی طرح صنعت کار اور تاجر اپنی تجارت میں بہتری لانے کیلئے جامعات کی تحقیق سے استفادہ حاصل کرتے ہیں تا کہ صنعتی پیداوار میں جدید طریقوں سے اضافہ کیا جا سکے۔ہمارے ہاں جامعات اور انڈسٹری کا رابطہ بھی کمزور ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کے حوالے سے بھی در پیش شدت پسندی ، دہشت گردی اور لا قانونیت کو موضوع تحقیق نہ بنا سکے کہ سیاسی و سماجی انصاف اور جمہوری مزاج کی تشکیل میں معاون ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی منصوبہ بندی اور حکومتی اقدامات کے ذریعے معاشرے اور جامعات کے تعلق کو بحال کیا جائے اور اپنے مسائل کے حل کیلئے جامعاتی تحقیق کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جائے۔

مزید پڑھیں:  راہ حق کے شہیدوں اور غازیوں کو سلام