فریاد کچھ تو ہو!

جرمنی میںپاکستانی مشن پر افغان مہاجرین کے ایک گروہ کی جانب سے عمارت میں گھس کر حملے کی خبریں آنے اور پاکستان کی جانب سے اس پر جرمن حکومت سے احتجاج کے بعد عوام یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایک عرصے سے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے قیام میں ایک بار پھر ایک سال کی توسیع کا کیا جواز ہے صورتحال یہ ہے کہ اس وقت بیرون ملک مختلف ممالک میں جو افغان مہاجرین آباد ہیں ان میں سے بیشتر بلکہ ان کی غالب اکثریت پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹوں پر سفر کرکے آباد ہوئے ہیں مگر انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنے محسن پاکستان کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کا ارتکاب کرنے سے باز نہیں آتے ، اس وقت بھی پاکستان میں ایسے لاکھوں افغان مہاجرین کے علاوہ جنہیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق جائز یعنی قانون کے مطابق قرار دیا جا سکتا ہے جو باقاعدہ رجسٹرڈ بھی ہیں تاہم ایسے افغان مہاجرین کی بھی اچھی خاصی تعداد غیر قانونی طور پر یہاں آباد ہے جن کے پاس نہ کوئی قانونی دستاویز موجود ہے نہ ہی ان کا ڈیٹا شاید موجود ہو ، یہ ان لوگوں کے علاوہ ہیں جنہیں مبینہ طور پر ایک سابق حکومت نے بعض عسکری شخصیات کی آشیر باد سے لا کر آباد کیا حالانکہ ان کے ماضی کے حوالے سے بھی مبینہ طور پر دہشت گردی میں تلویث کی جانب اشارے کئے جاتے ہیں بہرحال پاکستان کا قومی مفاد اس بات میں ہے کہ ان کو مزید مہلت دینے کی بجائے واپسی کی راہ دکھا دی جائے تاکہ ملک میں امن کا قیام ممکن ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  گرڈ سٹیشنز پر حملوں کی روک تھام پر توجہ